سردار عبدالرب نشتر


ڈاکٹر ایم اے صوفی
1891
ء میں محلہ کاکڑاں پشاور میں عبدالحنان خان کاکڑ کے ہاں ایک پھول نما ہنستا ہوا بچہ پیدا ہوا، جس کے چہرے پر ایک امید پھیلانے کی علامت تھی۔ اس بچہ کا نام عبدالرب رکھا جو بڑا ہوا، رت جوانی کی بدلی، شعروشاعری کی پیاس بجھانے کے لیے نشتر تخلص رکھ لیا گیا جو بعد میں مسلمانان ہند کے لیڈر کی دل کی دھڑکن کے ساتھ ایک پیارے دیس پاکستان کی جدوجہد میں مصروف ہوگیا۔ نشتر صاحب کی تقریر میں محبت، الفت، بھائی چارہ، اسلام کی خوشبو کی مہک ہوتی تھی۔ وہ آخری وقت تک تصورات اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ کی قیادت کے امین تھے۔ ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ وہ خوشگوار قسم کی شخصیت تھے۔ ان کی نگاہ میں سوچ، حرکت اور عمل تھا۔ ان کا چہرہ صاف ستھرااور چاند جیسا تھا۔ وہ جاذب نظر شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا لباس خالص مشرقی تھا۔ میانہ قد، آنکھوں میں خاص قسم کی چمک تھی۔ جوانی میں ابھرتے ہوئے شاعر تھے۔ احساس اور تمنا سارے جذبات پاکستان اور قائداعظم ؒ کے اصولوں پر تھے۔ آپ کے والد عبدالحنان خان ریلوے میں ٹھیکیدار تھے۔ آپ نے تعلیم ایڈورڈ کالج پشاور اور بی اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اس وقت پشاور میں ایک ہی ایڈورڈ کالج تھا، دوسرا کالج 1913ء میں صاحبزادہ عبدالقیوم خان نے قائم کیا تھا۔ جو پہلے اسلامیہ کالجسٹ سکول تھا، بعد میں اسلامیہ کالج پشاور بنا۔ 1950ء میں خان عبدالقیوم خان صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے۔ پشاور یونیورسٹی کا سنگ بنیاد خان لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان سے رکھوایا۔ سردار عبدالرب نشتر مزید وکالت کی تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ تعلیم کے دوران مزاج شاعرانہ تھا۔ سیاست میں بھی دلچسپی لیتے تھے چنانچہ 1930ء کی سول نافرمانی کے عوض جیل گئے۔ آپ نے بھی سیاسی ٹریننگ کانگریس سے حاصل کی۔ ہندو ذہنیت کو قریب سے دیکھا کہ کیسے ہندو کانگریسی لیڈر مسلمانوں کو اندر ہی اندر سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ آپ کانگریس سے الگ ہوگئے اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ قائد نے آپ کی صلاحیتوں کو پہچان لیا اور آپ کو آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ میں شامل کرلیا۔ آپ قائد کے بااعتماد ساتھی، سچے پاکستانی اور مسلمان تھے۔ 1946ء کی شملہ کانفرنس میں قائداعظم اپنے ساتھ جن تین مسلم لیگی رہنمائوں کو لے کر گئے ان میں سردار عبدالرب نشتر بھی تھے۔ 10 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی حلف برداری کی تقریب میں جن 53 آدمیوں نے رکنیت کے رجسٹر پردستخط کیے ان میں سردار عبدالرب نشتر بھی تھے۔ اسی طرح 14 اگست 1947ء کی اہم تقریب میں انتظامات کے لیے قائداعظم محمد علی جناح نے عبدالرب نشتر کا انتخاب کیا۔ ہندوستان کی عبوری حکومت میں آپ کے پاس وزارت مواصلات تھی۔ قیام پاکستان کے بعد آپ دوبارہ وزیر مواصلات تھے۔قرارداد لاہور 23 مارچ 1940ء کی منظوری اور قیام پاکستان کے بعد آپ کی خدمات گوناگوں ہیں۔ آپ نے مسلم لیگ کی قیادت کے تحت برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی اور اسلامی مملکت کے قیام کی جنگ لڑی۔ آپ قائداعظم کے شیدائی تھے ۔