فلسطین کا شہر الخلیل ۔۔۔ مسلمانوں کا چوتھا مقدس مقام



مدیحہ انور
اسلامی عقیدے کے مطابق الخلیل کو مکہ ِمکرمہ، مدینہ ِمنورہ اور یروشلم کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے چوتھا مقدس ترین شہر مانا جاتا ہے۔ بیت اللحم سے الخلیل کا فاصلہ 14 میل کا ہے ۔ الخلیل، غزہ کے بعد فلسطین کا دوسرا بڑا شہر ہے اور مسلمانوں کے لیے بے حد محترم بھی کہ یہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحقٰ علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے مراقد ِعالیہ ہیں۔ یروشلم اور بیت اللحم کے قدیمی شہروں کی طرح الخلیل کے اندرون شہر کی گلیاں بھی تنگ ہیں۔مسجد ِابراہیمی میں بی بی سارہ کا روضہ ہے۔ بی بی سارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ تھیں۔ یہاں سے نکل کر مسجد میں داخل ہو کر حضرت اسحقٰ علیہ السلام اور انکی اہلیہ کی قبور ِمبارکہ دکھائی دیتی ہیں۔ دائیں ہاتھ پر اندر کی جانب ایک کمرے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مرقدِ عالیہ موجود ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو تعویذ (اصل قبر پر بنائی گئی قبر) دکھائی دیتا ہے، وہ دراصل علامتی قبر ہے اور یہاں مدفون انبیائے علیہ السلام اور ان کی ازواج کی اصل قبور ایک غار میں تقریبا 40 فٹ کی گہرائی میں ہیں جہاں کسی کی رسائی نہیں اور مقامی اسلامی وقف کی جانب سے غاروں میں موجود ان قبور کو ان معزز ترین ہستیوں کے احترام کی وجہ سے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ البتہ ایک چھوٹی سی جالی کے ذریعے نیچے غار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہودی عقیدے میں اس مقام کو Cave of Patriarchs کہا جاتا ہے۔ یہودیت میں یروشلم کے بعد اس مقام کو مقدس ترین مانا جاتا ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں ہی یہ قطعہ ِاراضی اپنے مدفون ہونے کے لیے حاصل کر لی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقبرہ یا مسجد ِابراہیمی دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ مسجد جبکہ دوسرا حصہ سیناگاگ یا یہودیوں کی عبادت گاہ ہے جہاں پر صرف یہودیوں کو داخلے کی اجازت ہے۔ 25 فروری 1994ء کو ایک امریکی اسرائیلی آبادکار باروچ گولڈسٹین نے رمضان کے مہینے میں جمعے کے روز نماز ِفجر کے وقت مسجد میں گھس کر مسلمانوں پر گولیاں برسائی تھیں جس کے نتیجے میں 29 فلسطینی مسلمان شہید اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔اسی واقعے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مرقد کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان مسجد اور سیناگاگ میں بلٹ پروف شیشے کی دیواروں سے تقسیم کر دیا گیا۔۔۔ سال میں دس دن ایسے ہیں جب یہودی مسلمانوں کے حصے میں اور مسلمان سیناگاگ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ الخلیل شہر کو 1994ء میں اوسلو معاہدے کے بعد دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ H1 جو کہ فلسطین جبکہ H2 اسرائیلی حکام کے زیر ِانتظام ہے اور تقریبا شہر کا 20 فی صد علاقہ H2 کا حصہ ہے۔اس شہر کی ہوا میں ایک بوجھل پن نمایاں ہے اور مقامی چہروں پر خوف واضح دکھائی دیتا ہے۔یہودی آبادکاری اور بے تحاشا سیکورٹی کے باعث مسلمانوں کے لیے یہاں پر کاروباری مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ الخلیل میں عرب مٹھائی کی ایک بہت مشہور دکان پیراڈائز سوئیٹس ہے جہاں بہترین کنافہ فروخت ہوتا ہے۔