جنگ1857ء کے بعد
جنگ1857ء کے بعد میری والدہ اور گھر کے لوگ اور بچے اور سب عزیز و اقارب دہلی میں تھے اور میں بجنور میں صدر امین تھا۔ وہ (والدہ)اس وقت لوگوں سے کہتی تھیں کہ انگریز تھوڑے دنوں میں پھر آ جائیں گے۔ تم سب خاموش اپنے گھروں میں بیٹھے رہو۔ جو لوگ فساد میں شریک نہ ہوں گے۔ انگریز ان کو کچھ نہیں کہنے کے‘‘ ان کو یقین کامل تھا کہ انگریز بجز ان کے جنہوں نے فساد کیا ہے کسی کو کچھ تکلیف نہیں دینے کے‘‘ جب زمانہ فتح دہلی قریب ہوا اور کشمیری دروازہ فتح ہو گیا۔ سب زن و مرد شہر سے باہر چلے گئے مگر وہ ان کی ایک بہن جو نابینا تھیں اس یقین کے ساتھ کہ انگریز بے گناہوں کو نہیں ستانے کے اپنے گھر سے نہیں گئیں۔ مگر افسوس کہ ان کا خیال غلط نکلا اور ایسی نیک بی بی کو آخیر عمر میں تکلیف پہنچی۔ جب دلی فتح ہوئی تو سپاہی گھروں میں گھس آئے۔ تمام گھر لوٹ لیا وہ مع اپنی بہن کے حویلی چھوڑ کر اس کوٹھری میں چلی آئیں جس میں زیبا بڑھیا رہتی تھی۔ آٹھ دس دن انہوں نے نہایت تکلیف سے بسر کیے۔ اس عرصہ میں راقم جو میرٹھ میں آ گیا تھا۔ میرٹھ سے دہلی پہنچا اور اپنی والدہ کے پاس گیا۔ اس وقت تین دن سے ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ گھوڑے کا دانہ مل گیا۔ اسی پر بسر تھی۔ دو دن سے پانی بھی ختم ہو چکا تھا اور پانی کی نہایت تکلیف تھی۔ میں نے کوٹھری کا دروازہ کھٹ کھٹایا اور آواز دی۔ انہوں نے دروازہ کھولا۔ پہلا لفظ جو اُن کی زبان سے نکلا یہ تھا کہ ’’ہیں! تم یہاں کیوں آ گئے۔ یہاں تو لوگوں کو مارے ڈالتے ہیں تم چلے جائو ہم پر جو کچھ گذرے گی‘ گذرے گی۔‘‘ میں نے کہا ’’آپ خاطر جمع رکھیے مجھے کوئی نہیں مارے گا۔ میرے پاس سب حاکموں کی چٹھیاں ہیں اور میں ابھی قلعہ کے انگریزوں اور دہلی کے گورنر سے مل کر آیا ہوں‘‘ ان کی طمانیت ہوئی اور معلوم ہوا کہ دو دن سے پانی مطلق نہیں پیا ہے۔ میں پانی کی تلاش کو نکلا پانی اس طرف کہیں نہیں ملا۔ ناچار قلعہ گیا۔ ایک صراحی پانی لے کر چلا۔ جب اپنے گھر کے قریب کے بازار میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ ہی لاوارث بڑھیا سڑک پر بیٹھی ہے۔ پانی کی تلاش کو نکلی تھی۔ میں نے اس کے آبخورے میں پانی دیا اور کہا پانی پی لے۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے آبخورے کا پانی صراحی میں ڈالا اور کچھ گرا دیا اور گھر کی طرف اشارہ کیا اور کچھ کہا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ بیگم صاحبہ پیاسی ہیں۔ میں جلدی جلدی گھر کی طرف آیا۔ اب میں گھر سے نکلا کچھ سواری کا بندوبست کر کے ان کو میرٹھ لے جائوں جب اس مقام پر پہنچا جہاں بڑھیا لیٹی تھی تو معلوم ہوا کہ وہ مر چکی ہے۔ سارے شہر میں باوجودیکہ حکام نے بھی احکام جاری کیے لیکن کہیں سواری نہیں ملی آخرکار حکام قلعہ نے اجازت دی کہ شکرم جو سرکاری ڈاک میرٹھ کو لے جاتی ہے مجھ کو دیدی جائے میں وہ شکرم لے کر گھر پر آیا اور اپنی والدہ اور خالہ کو اس میں بیٹھا کر میرٹھ لے آیا۔ (مشاہیر کی آب بیتیاں سے اقتباس)
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
KHoob
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks