مصوری کی تعلیم


محمد جاوید
اصل موضوع تو آئل رنگوں میں مصوری کا تھا۔ کیا کیا جائے ہمارے حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ ابھی تک ہم مغرب کے زیراثر چلنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں اپنی روایات کو مضبوط کرنے کیلئے ایک بڑی تبدیلی لانا ہو گی۔ اب آپ آئل رنگوں کا فن پاروں میں استعمال ہی دیکھ لیجیے یہ رنگ کہاں سے آئے اور کیسے استعمال کئے جاتے ہیں۔ سب کی سب کہانی مغرب سے ہی شروع ہو گی یعنی رنگوں کی ایجاد سے لے کر فن پاروں کی تیاری تک کی کھوج لگاتے ہوئے آپ فلمیش پینٹرز کی طرف پہنچ جائیں گے گو کہ اجنتا وغیرہ کی غاروں میں کچھ روغنی رنگوں کا استعمال ملتا ہے۔ ان غاروں میں کئے گئے کام کو مغرب کے کارناموں کے ساتھ ملانا ہماری فن مصوری کی تاریخ کی مجبوری ہے۔ آرٹ کا کام سارے کا سارا مذاہب کو اجاگر کرنے کے لیے کیا جاتا تھا عیسائیت ہو یا بدھ مت جو بھی آرٹ کے نمونے ملیں گے مذہب اور کہیں کہیں کلچر جھلکتا نظر آئے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فن پارے و دیگر آرٹ کے نمونے قوموں کی پہچان ہوتے ہیں۔ اس لیے بعض اوقات حملہ آور یہ آرٹ کے نمونے ضائع کر کے اپنا جھنڈا گاڑنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جب ہندوستان آئی تھی تو یہاں سے نادر مصوری کے نمونے ساتھ لے گئی۔ امیر حمزہ کی داستان جو کہ بارہ جلدوں اور چودہ سو تصاویر میں تھی‘ بکھر گئیں۔ اس میں سے نہ ہونے کے برابر نمونے ویانا (آسٹریا) اور وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم لندن میں رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح منگولوں نے بغداد کے کتب خانے جلا دیئے تھے اور رومن جب یونان آئے تو وہاں کے پیتل کے مجسموں کو پگھلا کر لڑنے والے ہتھیار بنائے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آرٹ کی بہت اہمیت ہے مگر پاکستان میں تو معاملہ اگر الٹ نہیں تو اتنی زیادہ پذیرائی بھی نہیں ہے۔ آئل رنگوں میں مصوری کی دوسرے میڈیم سے زیادہ اہمیت ہے چونکہ مصور کو بڑی آزادی حاصل ہو جاتی ہے اور وہ جتنا چاہے اور جتنی دیر چاہے فن پارے پر کام کر سکتا ہے۔ اگر آپ تاریخی فن پاروں کی طرف نظر دوڑائیں تو وہ آج بھی ویسے ہی تروتازہ نظر آتے ہیں یعنی روغنی رنگوں سے تیار شدہ فن پارے کی زندگی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں یہ ذکر کر دوں کہ نوشانہ الیاس کی کتاب فنون لطیفہ زینہ بہ زینہ میں روغنی رنگوں کی ناکامیایوں کے حوالے سے لکھا ہے : تیل رنگوں کی سطح کے اوپر آ جاتا ہے۔ فن پارے کے سوکھنے میں دیر لگتی ہے بعض اوقات سال لگ جاتا ہے۔ تصویر کے اوپر ایک تہہ بن جاتی ہے۔ تصویر بوسیدہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ تیل کی تہہ پیلی ہو جاتی ہے جو رنگوں کو تبدیل کر دیتی ہے اور سطح تڑخ جاتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ مصنفہ نے کس تجربہ کی بنا پر یہ سب لکھا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو صدیوں سے مصور روغنی رنگ استعمال نہ کر رہے ہوتے۔ ان رنگوں کی ایجاد کا کام تو بارہویں صدی سے ہی شروع ہو گیا تھا اور چودہویں صدی میں جین وین آئیک نے پہلے سے کئے گئے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے السی کے تیل وغیرہ سے رنگ تیار کئے اور ٹیمپراپر استعمال کئے۔ آہستہ آہستہ 1840 میں یہ رنگ ٹیوبوں میں آنا شروع ہو گئے اور انیسویں صدی میں ان کا بھرپور استعمال شروع ہو گیا۔ اب تو یہ رنگ کئی شیڈز میں دستیاب ہیں۔ تصویر بناتے وقت رنگوں میں تو زیادہ تیل ملایا ہی نہیں جاتا۔ صرف ضرورت کے مطابق رنگ میں تھوڑا سا تارپین اور السی کا تیل ملا کر کینوس پر برش کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ یہ رنگ تہ در تہ بھی لگائے جاتے ہیں۔ میں تو چونکہ پیلٹ نائف سے کام کرتا ہوں اس لیے رنگ میں کوئی تیل وغیرہ نہیں ملاتا۔ میں اپنے پچاس سالوں سے زیادہ کے تجربہ کی بنا پر کہوں گا کہ کسی قسم کی تیل کی تہ فن پارے پر نہیں جمتی اس وقت تک جب آپ خود اس میں چمک پیدا کرنے کے لیے وارنش وغیرہ نہ لگا دیں۔ ہاں سوکھنے میں دو سے چار دن لگ سکتے ہیں اور سردیوں میں دو دن مزید لگنے کا امکان ہوتا ہے مگر یہی تو خوبی ہے چونکہ آپ جب چاہیں اور جس وقت چاہیں فن پارے کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اگر اس میڈیم میں مندرجہ بالا خرابیاں ہوتیں تو پرانے یعنی مغربی مصوروں کی پینٹنگز اب تک کیسے محفوظ رہ سکتی تھیں۔ لہذا کتاب فنون لطیفہ کے پبلشر نیشنل بک فائونڈیشن اور اس کی مصنفہ کو چاہیے کہ اس میں ضروری ترامیم کرنے کیلئے سوچیں تاکہ نوجوان طبقہ گمراہ نہ ہو۔ (ہفت روزہ اُنس اسلام آباد)