Dr Danish (11-02-2017)
یہ جو محبت ہے‘ یہ اُن کا ہے کام آنند بخشی…ایک رجحان ساز نغمہ نگار
عبدالحفیظ ظفر
اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ ہندوستان اور پاکستانی فلمی صنعت میں نابغہء روزگارنغمہ نگار پیدا ہوئے جن کے شاندار گیتوں نے ایک عہد کو متاثر کیا اور آج بھی ان کے لکھے ہوئے گیت دل کے تاروں کو چھو لیتے ہیں۔ اگر پاکستان میں تنویر نقوی‘ سیف الدین سیف‘ قتیل شفائی‘ تسلیم فاضلی اور طفیل ہوشیارپوری جیسے اردو کے بے مثل گیت نگار پیدا ہوئے تو بھارت میں بھی اعلیٰ درجے کے نغمہ نگاروں کی کمی نہیں رہی۔ بھارت میں شکیل بدایونی‘ حسرت جے پوری‘ شیلندر‘ مجروح سلطان پوری‘ راجہ مہدی علی خاں‘ اسد بھوپالی اور جاوید اختر سمیت کئی دوسروں نغمہ نگاروں نے بھی اپنی فنی عظمت کے جوہر دکھائے اور ایک طویل عرصے تک ان کی شہرت کا آفتاب چمکتا رہا۔ پھر ایک اور نغمہ نگار ان گیت نگاروں کی صف میں شامل ہو گیا۔ اس گیت نگار نے فلمی نغمات کو ایک نیا رجحان دیا۔ ان کا نام تھا آنند بخشی۔ 21 جولائی 1930ء کو راولپنڈی میں پیدا ہونے والے آنند بخشی جب صرف پانچ برس کے تھے تو اُن کی والدہ چل بسیں۔ تقسیم ہند کے بعد بخشی خاندان دہلی ہجرت کر گیا۔ اس وقت ان کی عمر 17 برس تھی۔ شروع میں انہیں شاعری کا شوق تھا۔ پھر انہوں نے فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی شاعری کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ وہ کبھی کبھی گیت لکھتے اور ممبئی کے فلم سازوں کو فروخت کر دیتے تھے۔ بالی وڈ میں داخل ہونے سے پہلے انہیں گلوکار بننے کا بھی شوق تھا لیکن انہیں گیت نگاری میں زیادہ کامیابی ملی۔ 1958ء میں انہیں برج موہن کی فلم ’’بھلا آدمی‘‘ کیلئے گیت لکھنے کا موقع ملا۔ ان کے پہلے گیت کے بول تھے ’’دھرتی کے لال نہ کر اتنا ملال‘‘ پھر انہوں نے فلم ’’مہندی لگی میرے ہاتھ‘‘ کے نغمات لکھے اس فلم کی موسیقی کلیان جی آنند جی نے ترتیب دی تھی۔ 1962 میں انہوں نے فلم ’’کالا سمندر‘‘ کیلئے قوالی لکھی۔ جس کے بول تھے ’’میری تصویر لے کر کیا کرو گی تم‘‘ 1965ء میں انہوں نے ’’ہمالیہ کی گود میں‘‘ اور پھر ’’جب جب پھول کھلے‘‘ کیلئے نغمات تحریر کئے ان فلموں کے گیت بے حد مقبول ہوئے بلکہ ابھی تک ان گیتوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر ’’جب جب پھول کھلے‘‘ میں ان کا گایا ہوا یہ گیت تو امر ہو گیا ’’پردیسیوں سے نہ اکھیاں لگانا‘‘ ’’جب جب پھول کھلے‘‘ کی شاندار کامیابی میں اس کے گیتوں کا بڑا عمل دخل تھا۔ 1967ء میں ان کی فلم ’’ملن‘‘ ریلیز ہوئی۔ سنیل دت اور نوتن کی اس فلم کے گیتوں نے بھی ہر طرف دھوم مچا دی۔ خاص طور پر یہ گیت ’’ساون کا مہینہ پون کرے شور‘‘ بہت زیادہ مقبول ہوا۔ 1972ء میں انہوں نے فلم ’’موم کی گڑیا‘‘ کیلئے گیت گائے۔ لتا منگیشتر کے ساتھ ان کا گایا ہوا یہ گیت ’’باغوں میں بہار آئی‘‘ بہت مشہور ہوا۔ 70ء کی دہائی کو ان کے عروج کا زمانہ کہا جا سکتا ہے۔ اس دہائی میں انہوں نے ’’شعلے‘ مہاچور‘ چرس‘ امرپریم‘ ارادھتا‘ کٹی پتنگ‘ سیتا اور گیتا‘ کھلونا‘ بوبی‘ آیا ساون جھوم کے‘ دھرم ویر‘ جولی‘ دشمن‘ ستم شیوم سندرم‘ اور ’’جینے کی راہ‘‘ جیسی سپرہٹ فلموں کے گیت لکھے۔ آنند بخشی نے لکشمی کانت پیارے لال‘ آر ڈی برمن‘ کلیان جی آنند جی‘ ایس ڈی برمن‘ انو ملک اور راجیش روشن جیسے اعلیٰ پائے کے سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا۔ انہوں نے کئی فلمی ایوارڈ بھی حاصل کئے۔ 70ء کی دہائی میں آرڈی برمن‘ کشور کمار اور راجیش کھنہ کی تکون بن گئی تھی۔ اس تکون نے ناقابل فراموش نغمات تخلیق کئے۔ آنند بخشی کو اس لیے رجحان ساز نغمہ نگار قرار دیا جاتا ہے کیونکہ ان کے گیتوں میں سادگی اور غنائیت کا بڑا خوبصورت امتزاج ملتا تھا اس کے علاوہ انہوں نے اپنے گیتوں میں نکتہ آفرینی کو بھی متعارف کرایا۔ فلم ’’امر پریم‘‘ کا یہ گیت ملاحظہ کیجیے۔ چنگاری کوئی بھڑکے تو ساون اُسے بجھائے ساون جب اگن لگائے اُسے کون بجھائے ذیل میں آنند بخشی کے ان نغمات کا ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے بے پناہ شہرت حاصل کی ۔ 1۔ پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا (جب جب پھول کھلے) 2۔ یہ جو محبت ہے یہ ان کا ہے کام (کٹی پتنگ) 3۔ پیار دیوانہ ہوتا ہے (کٹی پتنگ) 4۔ کورا کاغذ تھا یہ من میرا (ارادھنا) 5۔ اگر ساز چھیڑا (جوانی دیوانی) 6۔ تیرے میرے بیچ میں کیسا ہے یہ بندھن (ایک دوجے کیلئے) 7۔ آنے سے اس کے آئے بہار (دو راستے) 8۔ خزاں کے پھول پہ آئی کبھی بہار نہیں (دو راستے) 30 مارچ 2002ء کو آنند بخشی 71 برس کی عمر میں اس جہاں سے رخصت ہو گئے۔
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Dr Danish (11-02-2017)
Umdah Intekhab
Thanks 4 Nice Sharing....
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks