پاکستان میں سٹیج ڈرامے کا ارتقاء


منیر راج
لاہور کے تھیٹر میں شخصی اداکاری اس وقت عام ہوئی جب 1979-80ء میں اداکار امان اللہ کا دور آیا اور وہ آتے ہی مروجہ تھیٹر پر چھا گیا۔ امان اللہ میں اداکاری کم اور صدا کاری زیادہ تھی‘ جگت کو امان اللہ نے اتنا عام کیا کہ ہر کامیڈی اداکار کے لیے کردار میں جگت کرنا ضروری سمجھا جانے لگا۔ جو اب تک رائج ہے۔ امان اللہ کی شخصی عادت میں بندر بننا اور گائوں اور شہر کے کلچر کو اپنے انداز میں بیان کرنا شامل تھا۔ جو اس نے اپنے طویل دور میں جاری رکھا۔ 1950ء سے 1960ء اور 1970ء تک اداکار‘ ہدایتکار اور مصنف کمال احمد رضوی کا انداز بھی اپنا تھا۔ ڈرامے میں جب بھی ’’کھج‘‘ کے بات کرتے تو لوگ ان کے انداز کو پسند کرتے تھے۔ اسی طرح جمیل فخری کا آنکھوں آنکھوں میں مزاح پیدا کرنا‘ فخری احمد کا پہلوانی انداز‘ خالد عباس ڈار کا مکالمے کرتے کرتے ایک دم لمبی تان لگانا‘ یہ وہ عادات ہوتی ہیں جنہیں اداکار ہمیشہ اپنے ساتھ ساتھ رکھتا ہے۔ یہ طرز وہ ہے جسے Bashky اپنی مشہور کتاب The Path of the Russian Stage میں ’’مظہری طرز‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ اس طرز کا ایکٹر اپنے آپ کو یہ فریب نہیں دیتا کہ وہ واقعی چین کا خاقان ہے‘ روم کا سیزر ہے یا جارج پنجم ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ وہ ایکٹر ہے اور اس کے سامنے ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جنہیں اس نے اپنے فن سے محظوظ و متاثر کرنا ہے‘ پرانے یونانی اداکار ایسے ہی تھے کہ جب وہ ٹریجیڈی مکالمے بولتے تو زیادہ تر چہرہ، دیکھنے والوں کی طرف رکھتے تھے تاکہ وہ دیکھنے والوں کو اپنی اداکاری سے متاثر کر سکیں اور کردار کے جذبات کا بھرپور انداز میں اظہار کر سکیں۔ باڈی ورک Body Work ہر اداکار اپنے اپنے انداز میں باڈی کا استعمال کرتا ہے یہ مثالیں زیادہ تر انڈین اور پاکستانی کامیڈی اداکاری میں بہتات سے پائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستانی فلموں میں اداکار آصف جاہ‘ دلجیت مرزا اور نذر‘ جبکہ پاکستانی تھیٹر میں کمال احمد رضوی‘ بعد میں فخری احمد‘ عرفان ہاشمی‘ ہندوستانی فلم میں مکری‘ ہالی وڈ میں جیری لوئیس جو اپنی باڈی موومنٹ سے لوگوں کو ہنساتے تھے۔ لاہور تھیٹر میں اکبر کوریا ایک ایسا اداکار تھا جو مکمل طور پر مکالمے کو اپنی باڈی میں سمو کر اداکاری کرتا تھا۔ اگرچہ ایسا کرنے کی ہر کامیڈی اداکار کوشش کرتا ہے مگر کردار میں گم ہو کر باڈی کو استعمال کرنا کسی کسی کا کام ہے جیسے فلم میں اداکار رنگیلا اور منور ظریف‘ تھیٹر میں سہیل احمد‘ جواد وسیم‘ افتخار ٹھاکر اور نواز انجم۔ واقعہ سنا کر ہنسانے والوں میں خالد عباس ڈار‘ معین اختر‘ عمر شریف جنہوں نے اس ملک میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں اپنی طرز اداکاری و کامیڈی کا لوہا منوایا۔ ایکسپریشن کی اداکاری یہ دنیا کا بہترین آرٹ ہے۔ فقرے کو محسوس کرتے اور سمجھتے ہوئے اداکاری کرنے والے اداکار گنے چنے ہیں۔ جیسے ہالی وڈ میں چارٹن ہسٹن‘ چارلی چپلن اور مارلن برانڈو۔ جبکہ انڈیا میں دلیپ کمار‘ کملا احسن‘ اوم پوری‘ گیتا بالی‘ مدھو بالا‘ نرگس‘ مینا کماری اور سمیتا پاٹل شامل ہیں جبکہ پاکستان میں علائو الدین‘ صبیحہ خانم‘ شمیم آرا اور تھیٹر میں شبانہ شیخ‘ شبانہ بھٹی‘ فردوس جمال‘ وسیم عباس‘ خالد بٹ‘ ثمینہ احمد اور ثمینہ پیرزادہ شامل تھے۔ ٭…٭…٭