روایات شکنی اور روایات سازی کو سمجھیں



عمیر احمد قادری
پاکستانی عوام کو مذہبی ، معاشرتی ،سیاسی اور ثقافتی رسم و رواج نے تقسیم کیا ہوا ہے، کچھ لوگ ان رسومات کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں اور کچھ شدید مخالفت کرتے ہیںبلکہ بعض مخالفین ان رسومات پر عمل کرنے والوں کیلئے شدیدنفرت کے جذبات بھی رکھتے ہیں اور اس نفرت کی وجہ سے پورا معاشرہ مختلف گرہوں میں بٹا ہو ا نظر آتا ہے اور ایک جیسے نظریات رکھنے والوں میں دوستیاں پروان چڑھتی ہیں ،اچھے تعلقات استوار ہوتے ہیں لیکن اگر بحثیت ایک مسلمان قوم کے ہم روایت شکنی اور روایت سازی کیلئے چند اصولی باتوں کو سامنے رکھیں تو یہ فیصلہ آسان ہو سکتا ہے کہ کن کن روایات کو جاری رہنا چاہے اور کن کو ترک کر دینا بہتر ہے اور اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی رسم و رواج پر یا اُس پر عمل کرنے والے لوگوں پر اعتراضات کرنے سے پہلے آپ کا علم متعلقہ موضوع پر گہرا ہونا چاہے ، آپ کا مخالفین کے دلائل سے بھی بخوبی واقف ہونا ضروری ہے اوردل و دماغ کامکمل طور پر غیر جانبدار ہونا بھی ضروری ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ اس بات کا مظہر ہے کہ آپ صرف تعصبات کی بناء پر مخالفت کر رہے ہیں اور آپ کو حقائق تک پہنچنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس سلسلے میں پہلی اصولی بات یہ ہے کہ ایسے تمام رسم و رواج جس کا کوئی بھی فعل دین سے متصادم ہو ، فحاشی عریانی پھیلانے کا باعث بن رہا ہویا کسی طبقے کی حق تلفی کا باعث ہو یا ظلم میں شمار ہورہا ہو تو یقینا ایسی رسومات کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے مثلا بسنت ،ویلینٹائین ڈے، ہولی وغیرہ لیکن بعض لوگ مخالفت بھی صرف بھیڑ چال کے اصول کے تحت کرتے ہیں یعنی اپنے ارد گرد کے لوگ اگر کسی کام کی مخالفت کر رہے ہیں تو دیکھا دیکھی خود بھی شروع ہو جاتے ہیں مثلا جہیز کو لعنت سمجھا جاتا ہے جو یقینا درست بھی ہے لیکن بعض لوگ شدت اختیار کرتے ہیں اور تحائف لینے سے بھی انکار کر دیتے ہیں جبکہ تحائف لینا اور دینا عین سنت ہے۔ اسی طرح نکاح عین سنت ہے لیکن شادی کے نام پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کرنا، اپنے سٹیٹس کا اظہار کرنا، مہندی اور بارات کے نام پر خرافات کرنا،اور اسراف کرنا یقینا گناہ کے کام ہیںاسی طرح بعض لوگ بہت سی مذہبی رسومات اداء کرتے ہیں جس میں بہت سے اچھے کام ہوتے ہیںتو اگر ایسی اچھی رسومات جاری رہیں تو یقینا اس میں کوئی حرج نہیں۔ مختصر یہ کہ کوئی بھی رسم و رواج جس کے اندر ہونے والے تمام کام دین کے کسی بھی حکم یا پاکستانی ثقافت سے متصادم نہ ہوں یااغیار قوموں کی نقالی نہ ہو اور اُس رسم و رواج کے مثبت اثرات معاشرے پر نظر آرہے ہوں تو اُس کو جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیںہے ۔