مقبرہ علی مردان خان



شیخ نوید اسلم
لاہور ریلوے سٹیشن سے شالامار باغ کو جائیں تو جی ٹی روڈ پر گلابی باغ سے تھوڑا آگے سنگھ پورہ سبزی منڈی کے بالمقابل ایک بلند و بالا اور پرشکوہ گنبد لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ یہ گنبد دراصل نواب مردان علی خان کے مقبرے کا حصہ ہے جو اپنے اوصاف کی بدولت لاہور کی تاریخی عمارات میں اہم مقام رکھتا ہے۔ نواب علی مردان خان شاہجہانی دورکا ماہر انجینئر بلند پایہ سپہ سالار اور مغل حکمران شاہ جہاں کا معتمد خاص تھا۔ اس نے شالامار باغ لاہور کی تعمیر کے علاوہ اپنا ایک ذاتی باغ بھی بنوایا تھا۔ جس کا نام نولکھا باغ تھا۔ اس باغ کی خوبصورت و رعنائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تعمیر پر9 لاکھ روپے صرف ہوئے شالامار باغ کی تیاری 6 لاکھ روپے سے عمل میں آئی تھی۔ اس وقت اس باغ پر لاہور کا لنڈا بازار قائم ہے اور اس کا ایک حصہ نولکھا بازار کہلاتا ہے۔شاہ جہاں چونکہ خود بھی عمارات کی تعمیر کا شوقین اور قدردان تھا لہذا اس نے علی مردان خان کی خوب آئو بھگت کی۔ انہیں دیگر اعزازات و انعامات کے ساتھ ساتھ قندھار کا گورنر بھی مقرر کر دیا۔ جلد ہی انہیں کابل کا بھی ناظم بنا دیا گیا۔ بعد ازاں علی مردان نے بلخ اور بدخشاں کی مہمات میں بھی حصہ لیا اور داد شجاعت دی انہوں نے شالامار باغ کی تعمیر کے علاوہ اسے سیراب کرنے کے لیے ایک نہر بھی بنوائی جو کسی کارنامے سے کم نہیں۔ اس دوران نواب علی مردان خان جہاں بھی گئے اپنے ذوق کی تشکیل کے لیے نہریں باغات اور دیگر عمارات بنواتے رہے۔ ان کی یادگار آج بھی کشمیر کابل پشاور اور ہندوستان کے کئی علاقوں میں موجود ہیں جو انجینئرنگ کا بے مثال شاہکار سمجھی جاتی ہیں۔ نواب علی مردان خان نے شالامار باغ کے قریب اپنی والدہ کا ایک نہایت عالی شاہ مقبرہ تعمیر کروایا۔ شالامار باغ کی طرح اس مقبرے کا نقشہ بھی علی مردان نے خود بنایا تھا جسے دیکھنے والے اس کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکتے۔ 1657ء میں نواب علی مردان کو اسہال کا مرض لاحق ہو گیا۔ چنانچہ آرام کی غرض سے انہوں نے شاہ جہاں سے اجازت لے کر کشمیر کا سفر اختیار کیا مگر وہ راستے میں ہی 26 اپریل 1657ء کو انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کے ہمراہ ان کا بیٹا ابراہیم خان بھی شریک سفر تھا لہذا نعش کو کشتی کے ذریعے لاہور لایا گیا اور مرحوم کی وصیت کے مطابق انہیں ان کی والدہ کے مقبرہ باغ امیر الامراء میں سپردخاک کر دیا گیا۔ مردان علی خان کا مقبرہ لاہور کا سب سے اونچا مقبرہ قرار دیا جاتا ہے عمارت تین منزلہ ہے جو ایک پلیٹ فارم پر بنی ہوئی ہے۔دیگر مغل مقابر کی طرح یہاں بھی قبور تہہ خانے میں بنائی گئی ہیں اسے مقبرے کی پہلی منزل کہا جا سکتا ہے یہ وسیع اور ہوا دار ہے یہاں روشنی کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا گیا ہے۔ اس کا فرش اب سادے پتھر کا ہے جو شاید بعد میں مرمت کے بعد لگایا گیا ہو گا۔ یہاں تین قبریں موجود ہیں۔ ان میں ایک علی مردان خان کی والدہ اور ایک خاندان کے کسی تیسرے فرد کی ہے۔ مقبرے کی تیسری منزل تک پہنچنے کے لیے یہیں سے دو راستے اوپر کو جاتے ہیں چھت کی منڈیر تقریباً ایک گز اونچی ہے گنبد کے ساتھ ساتھ تقریباً تین فٹ چوڑا راستہ ہے مقبرہ ہشت پہلو ہے اس کے ہر کونے پر یا پہلو پر ایک خوبصورت برج بنایا گیا تھا۔ جس کے آٹھ در ہیں ۔ مقبرے کی عمارت ایک خوبصورت اور وسیع باغ میں قائم کی گئی ہے اس کا داخلی دروازہ شمال کی سمت تھا۔ نواب علی مردان خان کے مقبرے کو موجودہ خراب حالت میں پہنچانے کے بڑے ذمہ دار سکھ حکمران بالخصوص رنجیت سنگھ تھا اس دور میں مقبرے سے قیمتی پتھر اتار لئے گئے حتی کہ قبور کے تعویز تک بھی باقی نہ چھوڑے گئے۔ مقبرے کی بیشتر عمارات کو گلاب سنگھ نے مسمار کر کے ان اینٹوں سے سکھ فوج کی چھائونی تعمیر کروائی۔ صدر دروازہ مسوراں والی پلٹن کے کرنل رودت سنگھ نے اپنے تصرف میں لے کر یہاں رہائش اختیار کر لی وہ 1834ء میں یہاں قابض ہوا۔ انگریز حکومت نے 1884ء میں کنہیا لال انجینئر (مصنف تاریخ لاہور) کی وساطت سے مقبرے کی ابتدائی مرمت کرا کر اسے تباہ ہونے سے بچا یا۔ ریلوے کی حدود میں آنے کے بعد مقبرے کے گرد اونچی دیواریں تعمیر ہو گئیں۔ جس سے مقبرہ نظروں سے اوجھل ہو گیا مگر مزید تباہی سے محفوظ رہا۔