Dr Danish (11-02-2017)
چند یادیں عبداللہ حسین
حسنین جمیل
عبداللہ حسین کا ذکرآتے ہی ان کے شہرہ آفاق ناول اداس نسلیں کا نام ذہن میں آ جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی بھی ادیب کا کوئی ایک ناول اس قدر مشہور ہو جاتا ہے کہ دوسری کتابیں پس پشت میں چلی جاتی ہیں۔ جسے قراۃ العین حیدر اور عبدالہ حسین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔قراۃ العین حیدر کا ناول آگ کا دریا بہت مشہور ہوا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ عینی آپا کا ناول آخر شب کے ہمسفر زیادہ بڑا ناول ہے۔ ایسا ہی عبداللہ حسین صاحب کے معاملے میں ہوا۔ اداس نسلیں کو لازوال شہرت ملی۔ اس کے برعکس ادب کے ناقدین ان کے ناول باگھ کو زیادہ اہم قراردیتے ہیں۔ دونوں عظیم لکھاریوں کے حوالے سے ایک بات بہت مشہور ہوئی کہ دونوں کے شہرہ آفاق ناول اداس نسلیں اور آگ کا دریا آگے پیچھے شائع ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر دونوںکے ناولوں کے چند صفحات میں طرز تحریر ایک جیسا ہے۔ قراۃ العین حیدراورعبداللہ حسین جیسے بڑے لکھایروںکے بارے میں ایک دوسرے کی نقل کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اسے ایک اتفاق ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ راقم کی عبداللہ حسین سے چند ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ایک مقامی اخبار میں ملازمت کرتے ہوئے ان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ 2005ء کا ذکر ہے۔ راقم نے چند ادیبوں کے نام لکھ کر اپنے مدیراعلیٰ کو دیئے کہ میں ان کے انٹرویو کرنا چاہتاہوں۔ عبداللہ حسین کے نام پر حکم ہوا کہ سب سے پہلے ان کا انٹرویو کیا جائے۔ یہ بات اپنے سینئر کو بتائی۔ انہوں نے میری حوصلہ شکنی کرتے ہوئے کہا تم یہ انٹرویو نہیں کرسکتے کیونکہ میں نے بھی کوشش کی تھی مگر انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ خیر میں نے ڈرتے ڈرتے ان کو فون کیا اور عرض کی کہ میں افسانہ نگار ہوں آپ سے ملاقات کا خواہش مند ہوں۔ آپ کو اپنی کتاب پیش کرنا چاہتا ہں۔ انہوں نے فوراً گھر آنے کا کہا۔ یہ میرے لیے بڑی حوصلہ افزا بات تھی۔ خیر میںان کے گھر پہنچا۔ وہ بہت پرتپاک اندازسے ملے میں نے ان کو اپنی کتاب پیش کی ۔ چائیکے بعد میں نے ڈرتے ڈرتے اپنا مدعا بیان کیا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے۔ میرے اخبار کا نام پوچھا میں نے نام بتایا۔ وہ اخبار2005ء میں بہت مشہور تھا۔ انہوں نے کہامیں اس اخبار کو نہیں جانتا۔ میں طویل عرصے بعد پاکستان واپس آیا ہوں ۔ پاکستان کے صرف دوبڑے اخبارات کے نام لیکر انہوں نے کہا کہ صرف ان کے بارے میں جانتا ہوں۔ جس اخبار کا نام آپ نے لیا،ایک صاحب کا مجھے فون آیا تھا،انہوں نے بھی اسی اخبار کا نام لیکر انٹرویوکرنے کا کہا تھا۔ ساتھ مجھے کہا اپنی مشہور کتابوںکے نام بتادیں۔ جس پر مجھے غصہ آ گیا میں نے ان کو ڈانٹ کر فون بند کردیا۔ آپ میری طرف سے ان کو معذرت کردیں۔ شاید اس دن میں نے زیادہ سخت لہجے میں بات کی تھی۔ میں نے جواب دیا، ٹھیک ہے،میں ان کو کہہ دوں گا۔ اتنا کہنے کے بعد وہ خاموش ہوگئے، چائے پینے لگ گئے۔ پھر ہمارے درمیان خاموشی حائل ہوگئی۔ پھر وہ بولے میں آپ کو انٹرویو دینے کو تیار ہوں لیکن میری ایک شرط ہے۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔ جی حکم ،میں نے جواب دیا۔آپ سوالات لکھ کرمجھے دے دیں۔ میںاپنے جوابات لکھ کر آپ کو دوں گااور اس انٹرویو کو بغیر کسی کاٹ چھانٹ کے شائع کیا جائے گا۔ میں نے کہا ،ٹھیک ہے، ایسا ہی ہوگا۔ میں نے اپنے اخبار کے دفتر جا کراپنے مدیر اعلیٰ سے اس بات کا ذکر کیا،انہوں نے رضا مندی ظاہر کی۔یہ عبداللہ حسین کا کسی پاکستانی اخبار کو طویل عرصے بعد دیا گیا انٹرویو تھا۔ 2دن بعد میں سوالات لکھ کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے میرے سامنے سوالات پڑھے اور کہا چند دن بعد میں آپ کو فون کروں گا۔ وعدے کے مطابق چند دن بعد ان کا فون آ گیا، میں نے سوالات کے جوابات لکھ دیئے ہیں، آپ آ کر لے جائیں،میںفوراً ان کے گھر پہنچ گیا۔ انہوں نے کاغذات میرے سامنے رکھے اور بولے اب اس انٹرویو کوپڑھیں ،میں نے انٹرویو باآواز بلند پڑھنا شروع کردیااور جب ختم ہوا تو بولے شاباش اب وعدے کے مطابق بغیر کانٹ چھانٹ کے شائع کردیں۔ میںواپس دفتر آ گیا اور مدیر اعلیٰ کو انٹرویو دے دیا۔ عبداللہ حسین کا انٹرویو اس اخبار کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا اور بہت سراہا گیا۔ اس کے بعد میں ان سے ملنے کبھی کبھی چلا جاتا، وہ ہمیشہ بہت پیار سے ملتے۔ جس روز عبداللہ حسین کی وفات ہوئی میں شہر سے باہر تھا۔ 2 روز بعد واپس آیا۔ شہر کے پوش علاقے کے قبرستان میں ان کی آخری آرام گاہ پر پھول ڈالتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے ان سے ملاقاتوں کی فلم چلتی رہی۔ وہ ایک عظیم لکھاری تھے۔ اپنی تخلیقات کے باعث وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Dr Danish (11-02-2017)
Umdah Intekhab
Thanks 4 Nice Sharing....
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks