آنکھ کا عارضہ



علامہ اقبالؔ کی ایک آنکھ بچپن ہی سے کمزور تھی۔ 1901ء میں جب ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنری کے امتحان مقابلہ میں شریک ہوئے تو طبی بورڈ نے آنکھ کی بینائی کمزور ہونے کے سبب اُن کو سرکاری ملازمت میں لیے جانے کی سفارش نہیں کی۔ یہ بظاہر ایک طرح کی ناکامی تھی مگر علامہ اقبالؔ کے مستقبل کے تابناک اور کامیاب ہونے کا پیش خیمہ تھی۔ سرکاری ملازمت میں وہ کمشنر اور گورنر بن سکتے تھے مگر ترجمان حقیقت اور حکیم مشرق غالباً نہ بن سکتے۔ زندگی کے آخری سالوں میں آنکھ میں پانی اُترنا شروع ہو گیا تھا۔ 1937ء کے آغاز میں موتیا بند کی اس قدر شدت ہو گئی کہ معالجوں نے لکھنے پڑھنے کی بھی ممانعمت کر دی۔ ڈاکٹر متھراداس موگا والے آنکھوں کے علاج میں غیر معمولی شہرت رکھتے تھے۔ اس شہرت عزت اور فنی مہارت کے باوجود بڑے خلیق اور وضع دار تھے۔ شیخ اعجاز احمد سے اُن کے تعلقات تھے۔ شیخ اعجاز صاحب کے ایماء پر ڈاکٹر صاحب علامہ اقبالؔ کی کوٹھی پر خود ہی تشریف لے آئے اور آنکھوں کا بڑی تفصیل کے ساتھ معائنہ کیا۔ متھراداس نے رائے ظاہر کی کہ موتیا بڑی تیزی سے اُتر رہا ہے ممکن ہے کہ مارچ 1938ء میں آپریشن کے لائق ہو جائے۔ انہوں نے فرمایا کہ فروری 1938ء میں وہ پھر معائنہ کریں گے اور اطمینان دلایا کہ جب بھی آنکھ آپریشن کے لائق ہو جائے گی وہ خود نہایت عمدگی کے ساتھ آپریشن کریں گے اور امید ہے کہ پوری بصارت عُود کر آئے گی۔علامہ نے شیخ اعجاز صاحب کو ڈاکٹر متھراداس کی رائے سے مطلع کرتے ہوئے لکھا کہ : ڈاکٹر صاحب نہایت خوش اخلاق آدمی ہیں اور میں خوش ہوں کہ تم اپنے تعلقات کے لیے ایسے بااخلاق آدمیوں کا انتخاب کرتے ہو۔ چونکہ 1938ء کے شروع ہی سے علامہ اقبالؔ پر دمے کے شدید دورے پڑنے لگے لہذا آپریشن ستمبر 1938ء تک ملتوی کر دیا گیا مگر ستمبر کے آنے تک وہ آنکھیں قیامت تک کے لیے بند ہو گئیں۔ اقتباس : روزگار فقیر (حصہ دوم) (شاعر مشرق سے چند ملاقاتوں کی یادداشت) از فقیر سید وحید الدین (انتخاب بابر پرویز) ٭٭٭