بہادر شاہ ظفرکی بے بسی



رحم دل بامروت غریب پرور منکسر المزاج وسیع المشرب اور خلیق انسان تھے۔ شعائر اسلامی کے پابند زاہد متقی اور پرہیز گار۔ البتہ رقص و موسیقی سے پرہیز نہ تھا۔ ادھر نماز عشا ادا کی ادھر راگ راگنی شروع۔ خود بھی ٹھمری لکھتے تھے جو محفلوں میں گائی جاتی تھی۔ فنون سپہ گری بشمول فیل سواری کی مہارت رکھتے تھے اور کبوتر اور بٹیر بازی سے بھی ناواقف نہ تھے۔ خوش نویسی میں بھی مہارت تھی۔ خطِ نسخ اور طغریٰ میں کمال حاصل تھا۔ اکثر اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے قرآن پاک کے نسخے دلی کی بڑی مسجدوں میں بطور ہدیہ بھیجا کرتے تھے۔ ظفرؔ کی بادشاہت یہ تھی کہ دربار لگا سکتے تھے حکم نہ دے سکتے تھے۔ یہ کام کمپنی کرتی تھی کیونکہ وہ ان کے وظیفہ خوار تھے۔ رعایا سے قرض لے کر اخراجات پورے کرتے تھے۔ بادشاہ کا مرتبہ تو اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں ہی گورنر جنرل جتنا بھی نہ رہا تھا مگر بہادر شاہ ظفرؔ تو لارڈ ایلن کو دربار میں کرسی نہ پیش کئے جانے کی سزا کے طور پر تخت ہما پر جلوہ افروز ہونے سے بھی محروم کر دیئے گئے۔ گزشتہ کی قدغنوں میں اضافہ یہ ہوا کہ عیدین نوروز اور بادشاہ کی سالگرہ کے دن پیش کی جانے والی نذروں کو بند کر دیا گیا گورنر جنرل کی مہر سے بادشاہ کے فدوی خاص کے الفاظ نکال دیئے گئے اور ہندوستانی رئیسوں کو بھی ایسا کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئیں۔ بادشاہ کو لکھے جانے والے خطوط سے یور میجسٹی کے الفاظ بھی ہٹا دیئے گئے۔ چشم قدرت نے اسی بادشاہ کو شاہ جہاںکے دیوان خاص میں ملزم کی حیثیت سے کھڑے دیکھا۔ جنوری 1857ء کو بہادر شاہ ظفرؔ پر مقدمہ چلا مارچ 1858ء کو فیصلہ ہوا اور اکتوبر 1858ء کو دلی سے روانہ کر کے دسمبر 1858ء کو رنگون پہنچا دیا گیا۔ رنگون میں یہ حال تھا کہ ایک تنگ و بوسیدہ کمرے کی معمولی چارپائی پر میلی کچیلی رضائی میں لپٹے ہوئے انگریز افسروں کو کھڑے ہو کر سلام کرتے اور زینت محل کے زیورات فروخت کر کے پیٹ کی آگ بجھاتے رہے۔ قید میں کسی کو ملنے کی اجازت نہ تھی۔ انھی عوامل نے ظفرؔ کی شاعری میں اداسی اورتنہائی کو جنم دیا جس نے ان کے باطن میں انگارے بھر دیئے۔ ان انگاروں سے اڑے ہوئے کچھ شررے ان کی آخری غزلوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ویسے بھی ظفرؔ مغلیہ انا کی بے بسی کا استعارہ تھے جو ان کی شاعری میں دل بے کس اور دل صد چاک کی ترکیبوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ پانچ دیوان تھے لیکن ایک دست بردِ زمانہ سے محفوظ نہ رہا۔ بادشاہت کے ساتھ پانچ دو اوین کا مطلب یہ ہوا کہ صبح و شام فکر سخن کے علاوہ کوئی کام نہ تھا۔ شاہ نصیر بے قرار ذوق اور غالب کی شاگردی اختیار کی۔ شاہ نصیرؔ کی شاگردی میں سنگلاخ زمینوں کو پانی کرنا سیکھا ذوق سے محاورہ روزمرہ کا استعمال سیکھا اور غالبؔ سے تصوف اور دل کی بات کہنے کا ڈھنگ سیکھا اور ان سب سے اپنا آہنگ مرتب کیا اور اس میں اپنی سلطنت کو محبوبہ کی نظر سے دیکھتے ہوئے اس کے غم عشق کی راستان رقم کی ان کی شاعری میں جو سیاسی معاشی اور معاشرتی حوالے ہیں وہ غالبؔ ذوق اور مومن کے ہاں موجود نہیں شاید اس لیے کہ ظفرؔ بادشاہ تھے اور ان کا دائرہ کار اور میل جول ان تینوں سے زیادہ تھا۔ ظفرؔ کے ہاں جو دماغی ورزش ہے اس میں بھی وہ دل کی بات کہہ کر قابل توجہ بنا لیتے ہیں ان کی پرگوئی اور قادر الکلامی دونوں ساتھ ساتھ چلتی ہیں البتہ پرگوئی کی موج میں بے شمار مصرعے ڈھیلے رہ گئے ہیں۔ ان کے ہاں اچھے شعر بکثرت تو نہیں لیکن خاصی تعداد میں موجود ہیں جو ان کی پرگوئی اور غزلوں کے انبار میں چھپے ہوئے ہیں کلام پرُدرد اور دلی کیفیات کا آئنہ دار ہے۔ محفلوں میں ان کا کلام پڑھا جاتا تھا۔ ان کے دور میں اگر غالبؔ مومن اور ذوق نہ ہوتے تو وہ اپنے دور کے صف اول کے شعراء میں شمار ہوتے۔ (نیٹ سے ماخوز) ٭٭٭