مولانا فضل الرحمن کی حقیقت آصف شاہ

مشاہدہ یہ ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے، اس کے بڑے سے بڑے عیوب بھی نظر نہیں آتے، آنکھیں اس کے محاسن اور کمالات کو خورد بین کی نظر سے دیکھتی ہیں، چھوٹی چھوٹی فضیلتیں بھی پہاڑ کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے برعکس اپنے دشمن اور مبغوض کے جملہ کمالات خواہ وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، آنکھوں کے سامنے بھی نہیں پڑتے، اس کے فقط عیوب دکھائی دیتے ہیں، اور یہ بھی نہیں کہ فقط واقعی عیوب دکھائی دیں، بلکہ جس طرح سبز عینک سے تمام اشیا سبز ہی سبز نظر آتی ہیں، اسی طرح بغض وعداوت کی آنکھ حقیقی کمالات اور واقعی فضائل کو بھی معائب ہی کے رنگ میں دیکھتی ہے، کسی واضح سے واضح کمال کا اقرار کرنا مخالف اور حاسد کو پہاڑ اٹھا لینے سے زیادہ گراں معلوم ہوتا ہے، اور اس کے محامد و مدائح کے سننے اور دیکھنے سے نہایت ہی زیادہ کلفت اور تنگی پیش آتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ کا المیہ یہ رہا ہے کہ قومی سوچ اور ملکی مفاد کے لیے کام کرنے والی جماعتوں اور افراد کے خلاف ہمیشہ منفی پروپیگنڈہ کیا گیا جو ان کو عوام کی نظروں میں بدنام کرنے والا تھا. قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی شخصیت بھی اس مذموم پروپیگنڈہ کا ہمیشہ شکار رہی ہے. آج میڈیا کے تیز ترین دور میں مولانا نے اپنی کردار کشی کرنے والے میڈیا کا جس تدبر اور باوقار انداز میں نہ صرف مقابلہ کیا ہے بلکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق سامراجی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے ان کے ایجنٹوں کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں جو مولانا کے مضبوط اعصاب کا مالک ہونے کی دلیل ہے. مولانا فضل الرحمن مفکر اسلام مولانا مفتی محمود رح کے خلف الرشید اور جانشین ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے ملکی سیاست میں مدبرانہ کردار ادا کر رہے ہیں.
مولانا کا آغاز سفر بہت ہی مشکل مرحلہ تھا، ملک میں مارشل لاء سختی سے نافذ تھا، سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی، سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والوں کو یا تو جیل بھیج دیا جاتا یا کوڑوں کی سزا سنائی جاتی تھی، ملک کی بڑی سیاسی شخصیات جیلوں میں تھیں یا خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھیں، مفکر اسلام مفتی محمود رح جان آفرین کے سپرد کرچکے تھے، باہمی اتحاد و اتفاق رخصت ہوچکا تھا، نفاذ شریعت کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تھا، اور حکمرانوں کے ہاتھ روکنے والا دور دور تک کوئی نظر نہ آتا تھا، ایسے میں جمعیت علمائے اسلام کے امیر حافظ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی رح نے مفکراسلام مفتی محمود رح کے جانشین کی حیثیت سے نوجوان فضل الرحمن کے سر پر دستار فضیلت رکھ کر مفتی محمود رح کی پگڑی حق دار تک پہنچا دی اور فرمایا،
میں نے اپنا حق ادا کردیا، اب تمھاری ہمت اور محنت ہے کہ اپنے آپ کو جمعیت کے رہنماؤں، کارکنوں، اور جانثاروں سے منواؤ، ان ناتواں کندھوں سے قوم کا عظیم الشان بھاری بوجھ اٹھاؤ، نفاذ شریعت کی قیادت کی ذمہ داری نبھاؤ، اختلافات کی منہ زور آندھیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرو، اپنا استحقاق اپنی عملی جدوجہد سے ثابت کرو اور اس انتخاب کو صحیح ثابت کرو- راستہ مشکلات سے پر تھا لیکن اولوالعزم لوگوں کے ساتھ اللہ تعالى کی خصوصی نصرت ہوا کرتی ہے. جانشین مفتی محمود نے امیر کی اطاعت میں سرتسلیم خم کر دیا اور قیادت کی بھٹی میں کندن بننے کے لیے عازم سفر ہوا. آئیے مولانا کے سیاسی سفر کا جائزہ لیتے ہیں.
مولانا پہلی دفعہ 1988ء کے الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب قرار پا کر اپنی پارلیمانی زندگی کا آغاز کرتے ہیں. 88ء کے انتخابات میں 207 کے ایوان میں پارٹی پوزیشن کچھ یوں تھی۔ پی پی پی 94، آئی جے آئی 56، جے یو آئی 7، پاکستان عوامی اتحاد 3، آزاد 40، اے این پی 2، بی این پی 2، اور ایک ایک نشست مزید تین چھوٹی جماعتوں کے حصے میں آئی. پی پی پی فاتح قرار پائی. بینظیر وزیراعظم منتخب ہوئیں اور جے یو آئی اپوزیشن نشستوں پر بیٹھی۔ 1988ء کے صدارتی انتخابات میں مولانا فضل الرحمن نے نوابزادہ نصراللہ خان کا نام بطور صدارتی امیدوار پیش کیا تو مقتدر حلقوں میں کھلبلی مچ گئی. مولانا فضل الرحمن کی جی ایچ کیو میں طلبی ہوئی اور جنرل اسلم بیگ نے اپنے امیدوار غلام اسحاق خان کے مد مقابل نوابزادہ نصراللہ خان صاحب کا نام پیش کرنے پر مولانا سے نہ صرف خفگی کا اظہار کیا بلکہ نام واپس لینے پر زور دیا، لیکن مولانا نہ مانے. بلکہ مولانا نے بےنظیر بھٹو کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے صاف لفظوں میں انکار کر دیا اور کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ وہ مجھے بھی میرے باپ کی طرح لٹکا دیں؟ یوں بے نظیر بھٹو نے تو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا، لیکن مولانا فضل الرحمن اپنی سیاست کے آغاز ہی سے مقتدر حلقوں کے لیے بھاری پتھر ثابت ہوئے۔
بے نظیربھٹو کی حکومت کے چند ماہ بعد ہی اپوزیشن نے غلام مصطفی جتوئی کی سربراہی میں سی او پی کے نام سے اتحاد قائم کیا جس نے حکومت کی ناقص پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ اس اتحاد میں مولانا بھی پیش پیش رہے۔ یہاں تک کہ جب بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اس پر بحث کے دوران مولانا نے اسمبلی میں شاہکار خطاب کیا اور تحریک کے حق میں بھرپور دلائل دیے۔ صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے محض 20 ماہ بعد بےنظیرحکومت کو چلتا کیا تو عام انتخابات کا انعقاد ناگزیر ٹھہرا. 90ء کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمن تو کامیاب نہ ہوئے لیکن جے یو آئی 6 نشستوں پر کامیاب قرار پائی۔ باقی پارٹی پوزیشن کچھ یوں تھی آئی جے آئی 106، پیپلز ڈیموکریٹک الائنس 44، حق پرست گروپ 15، اے این پی 6، جے یو پی (نورانی) 3، آزاد 33، پاکستان نیشنل پارٹی 2، جمہوری وطن پارٹی 2، اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) فاتح ٹھہرا۔ نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے اور جے یو آئی اپوزیشن میں بیٹھی۔
آئی جے آئی کا پس منظر یہ تھا کہ جنرل حمیدگل کی درپردہ حمایت اور غلام مصطفی جتوئی کی بظاہر قیادت میں نو جماعتوں کو اکٹھا کیا گیا اور قومی خزانے سے اس کی پرورش کی گئی۔ بعدازاں جنرل اسد درانی اور دیگر نے مختلف مواقع پر اس کا اعتراف بھی کیا۔ مہران بنک اسکینڈل کے نام سے جس کی بازگشت آج تک سنی جاتی ہے۔ بظاہر آئی جے آئی کا مقصد پی پی پی کی مخالفت اور حقیقتاً اس وقت کی مقتدر قوتوں کے چہیتے اور جنرل ضیاالحق کے منہ بولے بیٹے نواز شریف کو بطور قومی قائد متعارف کرانا تھا۔ اور یہ خدمت جماعت اسلامی نے محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً میاں صاحب کو کندھوں پر اٹھا کر اس طرح سرانجام دی کہ آج کل کپتان کی خدمت اور آؤ بھگت اس کے سامنے عشر عشیر بھی نہیں۔ جی ہاں جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے والے مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پرورش پانے والے اس اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس جرمِ انکار کی سزا مولانا کو 1990ء کے الیکشن میں شکست کی صورت میں برداشت کرنا پڑی اور آئی جے آئی کے منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف نے جے یو آئی کے خلاف ریشہ دوانیوں میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ایک موقع پر جب جے یو آئی کے دونوں دھڑوں میں اتحاد ہوا تو شیخ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی پر اتحاد ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کو مولانا سمیع الحق کی قیادت میں پچیس علما کا وفد سرکاری طیارے سی 130 میں اسلام آباد سے رحیم یار خان پہنچایا گیا مگر سوائے رسوائی کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ بہرحال ریشہ دوانیوں کی یہ کہانی اپنے اندر ایک طوالت رکھتی ہے۔
93ء کے انتخابات سے قبل جمعیت علمائے اسلام نے جے یو پی (نورانی) کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوری محاذ کے نام سے اتحاد قائم کیا اور اسی اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا. جے یو پی تو کسی نشست پر کامیابی حاصل نہ کر سکی، مگر جے یو آئی کے حصے میں 4 نشستیں آئیں، مولانا فضل الرحمن اپنے آبائی حلقہ سے کامیاب ہوئے. 207 کے ایوان میں پی پی پی 89 نشستوں کے ساتھ فاتح قرار پائی، جونیجو لیگ نے 6 نشستوں کے ساتھ، آزاد 16 اراکین میں سے بیشتر، اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے پی پی پی کی حمایت کی اور یوں بےنظیربھٹو کی اتحادی حکومت وجود میں آئی۔ جمعیت علمائے اسلام نہ صرف اپوزیشن میں بیٹھی بلکہ مسلم لیگ (ن ) کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا ووٹ بھی دیا۔ نوازشریف کے سابقہ رویوں کی وجہ سے، اسے وزارت عظمٰی کا ووٹ دینے سے انکار کر کے پی پی پی کو ووٹ دینے کے بجائے وزارتِ عظمٰی کے الیکشن میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام پر عورت کی حکمرانی کی حمایت کی پھبتی کسی جاتی ہے، حالانکہ کوئی ایک موقع ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ جمعیت علمائے اسلام نے عورت کو حکمرانی کے لیے ووٹ دیا ہو۔ پارلیمانی نظام میں ووٹ دینے ہی کو حمایت کہتے ہیں , جب ووٹ ہی نہیں دیا تو حمایت کیسی؟
وفاقی شرعی عدالت کا استحکام، اسلامی نظریاتی کونسل کی فعالیت، کونسل میں جمعیت کی نمائندگی، آٹھویں ترمیم میں اسلامی دفعات کو بدستور برقرار رکھنا، آئندہ سینٹ الیکشن میں بلوچستان سے جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار کی حمایت، سود کے متبادل اسلامی نظام معیشت کو رائج کرنا، منکر ختم نبوت ذکری فرقہ مسئلہ کے حل کے لیے ارکانِ پارلیمنٹ کے وفد کو مکران بھیجنا، جیسے دس نکاتی تحریری معاہدہ کے بعد جمعیت علمائے اسلام نے صدارت کے لیے فاروق لغاری کی حمایت کی۔ اسی موقع پر پیپلزپارٹی کی طرف سے دو وزارتوں کی پیشکش کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام کو حکومت میں شمولیت کی دعوت ملی، جسے جمعیت علمائے اسلام نے قبول نہ کیا اور بدستور اپوزیشن میں رہی۔ اسی دور میں مولانا فضل الرحمن قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چئیرمین رہے جسے بعض معترضین حکومتی حصہ اور دوسرے بعض نوازش خاص قرار دیتے ہیں. درحقیقت یہ اعتراض پارلیمانی کمیٹی سسٹم سے نابلدیت کا نتیجہ ہے. آئیے پارلیمانی کمیٹی سسٹم کا تھوڑا جائزہ لیتے ہیں۔
قائمہ کمیٹیاں متعلقہ وزارتوں کی کارکردگی کی نگرانی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، پارلیمانی جمہوریتوں میں کمیٹیوں کو پارلیمان کی آنکھ، کان، ہاتھ اور حتی کہ دماغ تک سمجھا جاتا ہے. یہ کمیٹیاں حکومت کا نہیں بلکہ پارلیمانی بندوبست کا حصہ ہوتی ہیں جو متعلقہ محکموں کے حوالے سے سفارشات اور نگرانی کے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔ 1993ء میں 32 اور اب قومی اسمبلی کی (ورکنگ) قائمہ کمیٹیوں کی تعداد 37 ہے جن میں ہر متعلقہ وزارت کی 30 کمیٹیوں کے علاوہ 5 غیر وزارتی اور اسمبلی رول 244 کی روشنی میں قائم دو اسپیشل کمیٹیاں شامل ہیں۔ جن میں شمولیت کے لیے تمام جماعتوں اور اراکین کو موقع دیا جاتا ہے کہ آپ کس کمیٹی میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد اسپیکر فیصلہ کرتا ہے اور اراکینِ کمیٹی چئیرمین کا چناو کرتے ہیں۔ ان کمیٹیوں میں احزابِ اقتدار و اختلاف دونوں کو کام کا موقع دیا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے ناقدین کو خبر ہو کہ نواز شریف کے دور حکومت میں قائد حزب اختلاف محترمہ بے نظیر اسی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کی چیئرپرسن تھیں اور بینظیر کے دور حکومت میں عین انہیں دنوں جب مولانا فضل الرحمن قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چئیرمین تھے، مسلم لیگ (ن) کے سرتاج عزیز سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چئیرمین تھے۔
حال ہی میں ملاحظہ کیجیے۔ موجودہ اپوزیشن میں متشدد ترین جماعت پی ٹی آئی کے اسد عمر چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار، گلزار خاں چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ، ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پبلک اکاونٹ کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور بطور چیئرمین کمیٹی دستیاب سہولیات سے بھی مستفید ہو رہے ہیں مگر نہ تو انہیں مراعات سے استفادے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور نہ ہی حکومت کی حمایت کا الزام. آخر یہ دو پیمانے کیوں؟
1997ء میں ن لیگ کے لیے بھاری مینڈیٹ کے حصول کا وہ طوفان اٹھا یا گیا، جس کے سامنے پی پی پی جیسی تناور جماعت اور بڑے بڑے مضبوط سیاست دان نہ ٹھہر سکے. نوابزادہ نصراللہ خان، اسفند یار ولی خان اور مولانا فضل الرحمن بھی اس الیکشن میں کامیاب نہ ہوئے۔ جے یو آئی کے حصے میں قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں آئیں جبکہ ن لیگ کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی۔ نواز شریف کسی دوسری جماعت سے اتحاد کے احتیاج کے بغیر بلاشرکت غیرے حکمران بنے۔
1999ء میں پرویز مشرف کے ہاتھوں ن لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد 2001ء میں بلدیاتی اور 2002ء میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ جے یو آئی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا۔ صوبہ سرحد میں واضح اکثریت کی بنیاد پر ایم ایم اے کی حکومت بنی جبکہ قومی اسمبلی میں ایم ایم اے کی جانب سے مولانا فضل الرحمن نے وزارت عظمٰی کے انتخاب میں حصہ لیا۔ 342 کے ایوان سے ظفر اللہ جمالی کو 172 ووٹ پڑے اور یوں وہ صرف ایک ووٹ کی برتری سے وزیر اعظم منتخب ہوئے، مولانا کو 86 اور امین فہیم کو 70 ووٹ ملے. مولانا اپوزیشن لیڈر قرار پائے۔
یہی وہ دور تھا جب نوابزادہ نصراللہ خان، آصف زرداری، جاوید ہاشمی اور نواب اکبر خان بگٹی نے مولانا کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا اور طے پایا کہ سرحد، سندھ اور بلوچستان میں بھی یہی لوگ اتحادی حکومتیں بنائیں گے۔ لیکن جب تمام معاملات طے پا گئے تو یہ خبر کسی طرح امریکی سفیر نینسی پاول تک پہنچ گئی۔ امریکہ نے پی پی پی کی جلاوطن سربراہ بے نظیر بھٹو پر دباؤ ڈالا کہ ان کی جماعت اس اقدام سے باز رہے۔ اسی دور میں ایم ایم اے قیادت نے بھرپور مہم چلا کر پرویز مشرف کو وردی اتارنے پر آمادہ کیا اور سترھویں ترمیم کی مشروط حمایت کی، جس پر بعد ازاں وہ مطعون ٹھہری کہ پرویز مشرف نے وعدہ کی پاسداری نہیں کی، حالانکہ ایک مخصوص ڈگر پر رواں نظام زندگی کا دھارا موڑنا مقصود ہو تو مستقبل کے ممکنہ خاکے کو مدنظر رکھتے ہوئے قیادت غیر مقبول فیصلوں سے قطعاً خائف نہیں ہوتی۔ سترھویں ترمیم یعنی ایل ایف او کی حمایت کے فیصلے کا پسِ منظر پرویز مشرف کا وردی اتارنے کا وہ وعدہ تھا جس کا اظہار اس نے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پوری قوم سے کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایم ایم اے قیادت کو اِس کا کریڈٹ دیا جاتا اور آمر پر پریشر بڑھایا جاتا لیکن میڈیا نے روایتی منافقانہ کردار ادا کرتے ہوئے ایسی الٹی گنگا بہائی کہ ایم ایم اے کی قیادت کو کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا اور آمر کو وعدہ فراموشی کا ماحول میسر آیا جس کا کسی نے نوٹس نہیں لیا اور یوں اس کے جرم پر پردہ پڑ گیا۔
2008ء کے عام انتخابات کے بعد یوسف رضاگیلانی کی سربراہی میں قومی حکومت تشکیل پائی جس میں ق لیگ کے علاوہ تمام قومی جماعتیں شریک ہوئیں. بعدازاں پہلے ن لیگ اور عرصہ ڈیڑھ سال بعد جے یو آئی جس سے الگ ہو گئیں۔ 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں جے یو آئی اپنے حصے کی 13 نشستوں کے ساتھ ن لیگ کی حکومت کا حصہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنے سیاسی سفر میں حکومتوں کا حصہ تو نہیں رہے، لیکن جب بھی مشکل حالات میں حکمرانوں کو کوئی در نہ سوجھا، تو صائب مشوروں کے لیے مولانا کا وجود انہیں رحمت ایزدی نظر آیا کیونکہ مولانا خواہ اپوزیشن میں ہی کیوں نہ ہوں، صائب مشورہ انہوں نے ہمیشہ امانت جانا اور اس پر مستزاد وہ قائدانہ صلاحیتیں جو ان پر ان کے والد بزرگوار کی طرح ودیعت خداوندی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی سیاسی زندگی میں 1988ء سے 2013ء تک سات انتخابات ہوئے اور ان کے نتیجے میں حکومتوں نے وجود پایا۔ جمعیت علمائے اسلام ان سات میں سے صرف دو حکومتوں، سابقہ اور موجودہ میں شامل ہوئی جن میں سے ایک (سابقہ) کے ساتھ شراکت برقرار نہ رہ سکی۔ یوں ہر حکومت کا حصہ ہونے کا میڈیائی پروپیگنڈہ سراسر بہتان ثابت ہوتا ہے. باوجودیکہ حکومت بنانا یا شریک حکومت ہونا قطعاً معیوب نہیں، ورنہ میدان سیاست کے کارزار کی نبرد آزمائی سراسر لاحاصل ٹھہرےگی. چونکہ مولانا فضل الرحمن کی طبیعت میں اعتدال کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، جو کہ قوم کے مجموعی مزاج کے خلاف ہے، کہ ہر معاملہ میں تشدد ہمارا وطیرہ ہے، اور یہ معتدل مزاجی ہی ان کے ہر حکومت کے ساتھ شامل ہونے کا تاثر دیتی ہے کہ ہمارے ہاں مخالف وہ ہے جو مد مقابل کی ایسی کی تیسی صرف رویے اور لب و لہجے سے کرے نہ کہ دلیل سے۔ خلاصہ یہ کہ اگر مولانا فضل الرحمان کو میڈیائی عینک اتار کر دیکھا جائے تو تحفظ دینی مدارس، آئین پاکستان میں اسلامی شقات کی حفاظت، ناموس رسالتۖ کے قانون کاتحفظ، اور مغربی تہذیب کو درل انے کی سازشوں کے خلاف وہ جیتا جاگتا ماؤنٹ ایورسٹ اور اسلام بیزار اور ملک دشمن عناصر کے لیے سد سکندری نظر آتے ہیں