طب یونانی اور مال روڈ دھماکہ حکیم عرفان اللہ مرزا

مال روڈ پر ڈرگ ایسوسی ایشنز کی احتجاجی ریلی میں خود کش حملہ کے بعد کوئی بھی اصل صورتحال کو جاننے سے قاصر ہے۔ میڈیا بھی اس مسئلہ کی حقیقی نشاندہی کرنے میں معذور نظر آتا ہے اور حکومت کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر یہ ثابت کر رہا ہے کہ ڈرگ ایسوسی ایشن والے غلط تھے۔ سچ اور جھوٹ کیا ہے ،یہ میں آپ کو بتاتا ہوں، کیونکہ میں ڈریپ اور قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں طب کے کیس کی طبی نمائندہ ہونے کی حیثیت میں ڈیل کررہا ہوں۔
سابق صدرِ پاکستان آ صف علی زرداری کے دیگر کارناموں کی طرح ڈریپ ایکٹ 2012ء بھی اُن کا ایک شاہ کار ہے۔ اسِ ایکٹ کی غرض و غایت میں بیان ہے کہ یہ قانون، پاکستان کے 70% غریب اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو سستی اور معیاری دیسی اور معاری ہربل و ہومیو ادویات کی فراہمی اور ملک کو فارن ایکسپورٹ کی شکل میں زرِ مبادلہ فرہم کرنے کے لیےWHO کی ہدایات کے مطابق لاگو کیا جا رہا ہے۔ اسِ کے تحت ڈرگ ایکٹ1976ء میں ترمیم کرکے دیسی، ہربل، ہومیو، چائینیز ادویات کو ڈرگ کی تعریف میں شامل کر کے انِ پر ایلوپیتھک فارماسیوٹیکل کے تمام قوانین کا اطلاق کر دیا گیا، بلکہ اسِ سے بھی مزید S.R.O412(1)2014 کے ذریعہ انلسٹمنٹ، رجسٹریشن، لائسنسنگ کا ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ بھی پیش کر دیا گیا۔ مزید براں ڈریپ آئے روز لیبلنگ رولز، پبلسٹی رولز، نئے ایس او پی جاری کر رہا ہے، جسِ سے یہ تمام عمل مُشکل کے بجائے ناممکن ہو تا جا رہا ہے، جس کی مثال ہربل یو نٹ کے لیے کم از کم جگہ 2 کنال کرنا ہے۔
پچھلے دو ماہ سے وفاقی حکومت بالعموم اور پنجاب حکومت بالخصوص جعلی ادویات کے نام پر ایک کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہے، جسِ کے تحت کثیر تعداد میں چھوٹے، درمیانے اور کچھ بڑے ہربل، ہومیو دوا ساز اداروں کو نہ صرفِ یہ کہ سیل کیا گیا ہے بلکہ اُن کے مالکان کو گرفتار کرکے جیل بھی بھیجا گیا ہے۔
موجودہ ڈریپ ایکٹ کے ممدوح فرماتے ہیں کہ یہ ایکٹ پریکٹیشنرز پر لاگوُ نہیں ہوتا، جبکہ ہمارے پاس اُن FIRs کی معلومات ہیں جو لوکل پریکٹیشنرز پر دی گئی ہیں، جنِ کا مینوفیکچرنگ سے تعلق نہ بھی تھا۔ اُن بیچاروں کو ادویات کی پسائی کے لے رکھے جانے والے گرائنڈر پر جیل بھیج دیا گیا۔ اسِ صورتِ حال پر تمام ہربل، ہومیو اداروں نے ڈریپ اور دیگر مقتدر حکومتی شخصیات سے رابطہ کر کے اُن کو اسِ ناانصافی اور ظلم کو روکنے کی استدعا کی، لیکن شنوائی نہ ہو نے پر بالاخر قانون کا سہارا لیتے ہوئے، تمام صوبوں کی عدالتِ عالیہ سے رجوع کر کے اسِ کو رکوایا۔ اب بھی متعلقہ حکام اپنی ان ماورائے قانون و عدالت سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حکومت اور اتھارٹی ہربل و ہومیو مینو فیکچررز سے جرائم پیشہ افراد سا سلوک کر رہی ہے، جس پر عدالتِ عالیہ لاہور نے بھی ایک رٹِ پٹیشن میں ایک FIR کی منسوخی کا حکم دیتے ہوئے سخت برہمی سے متعلقہ اداروں کوتنبیہ کی کہ آئندہ اُن کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس وقت تک صرف لاہور ہائی کورٹ میں چار سو سے زائد رٹ دائر ہو کر اسٹے گرانٹ ہو چکا ہے۔
ملک بھر میں، ڈریپ کے اسِ ظالمانہ، احمقانہ اقدام پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر حکومت نے اسِ پر بروقت کارروائی نہ کی تو امن و امان کا سنگین مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔اطباء، ہومیو، فارماسسٹس، اور اب تو PPMA (پاکستان فارماسسٹس مینو فیکچررز ایسوسی ایشن) نے بھی 16 جنوری2017ء کو رٹ پٹیشن نمبر 1235-17 لاہور ہائی کورٹ سے اسٹے لے لیا ہے۔روزانہ ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے اور ریلیاں ہو رہی ہیں، پریس کلبوں میں مظاہرے، پریس کانفرنسیں، الغرض ایک انتشار اور غم و غصے کی فضا ہے۔
2003ء میں اُس وقت کی حکومت نے موجودہ ڈریپ ایکٹ کے نفاذ سے پہلے TRADITIONAL MEDICINES POLICIY AND REGULATION (WHO Supported (APW,02/507) کے نام سے پالیسی جاری کی تھی۔

اسِ پالیسی کے مطابق موجودہ ڈریپ ایکٹ کے نفاذ سے پہلے، ریگولییشن منسٹری کو مندرجہ ذیل اقدامات کرنے تھے۔ واضح رہے کہ ان اقدامات کی تکمیل کے بعد حکومت کریک ڈاؤن کرتی تو اس کا قانونی جواز موجود ہوتا۔
1۔ تمام ہومیو ہربل پریکٹیشنرز کو انٹرنیشنل ہربل، ہومیو مارکیٹ میں ہونے والی ترقی اور جدید سائنسی طریقہ ہائے علاج سے مطلع کرنا اور سکھانا۔
2۔ تمام ہربل، ہومیو مینو فیکچررز کو جدید انڈسٹری کے بارے میں علم و ٹریننگ دینا۔
3۔ ملک میں پیدا ہو نے والی3500 ہربل کیش پودوں، فصلوں کے بارے میں کسانوں کو آگاہی، اُن کو زمین، کھاد، قرضے، اور تیکنکی معلومات فراہم کر کے، ان پودوں کی افزائش سے ملک کو ہرب میں نہ صرف خود کفیل کرنا بلکہ، ان کیش کراپس کو ایکسپورٹ کر کے ملک کے لیے قیمتی زرِ مبادلہ کمانا۔
4۔ قومی طبی کو نسل کی تشکیلِ نو، اسِ میں تجربہ کار، غیر سیاسی اعلی تعلیم یافتہ حکماء کا تقرر، فارماسسٹس، و دیگر ماہرینِ فن کی شمولیت۔ کونسل کے اختیار اور فرائض میں اضافہ، جسِ سے یہ ملک میں، بہتر، تجربہ کار معالج پیدا کر سکے۔ امتحانات کے طریقہ کار میں بہتری۔
5۔ طبیہ کالجز میں داخلے کا معیار ایف ایس سی کرنا۔ چار سالہ ڈپلومہ کے بجائے، 5سال کا ڈگری کورس، تمام کالجز کا یونیورسٹیز کے ساتھ الحاق۔
6۔ صاف اور تازہ، عمدہ کوالٹی کی خام جڑی بوٹیوں کی مارکیٹ میں فراہمی۔
7۔ ہربل ہومیو پریکٹیشنرز کو GMP,s and SOP,s کے بارے معلومات اور اُن کے مطابق اپنے مطب اور کلینکس کو اپ گریڈ کرنا۔
9۔ ملک میں معیاری اور جدید ہربل ٹیسٹنگ لیبز کا قیام۔
10۔ ڈگری ہولڈر اطباء، ہومیو پیتھس میں ذہین سٹوڈنٹس جن کو ڈاکٹر آف فارمیسی کا کورس کروا کر انِ ہربل لیبارٹیروں میں تعینات کرنا، تاکہ ہربل، ہومیو مینو فیکچررز کی ادویات درست طریقے سے غیر متعصبانہ چیک ہو سکیں۔
11۔ اینلسٹمینٹ کا طریقہ کار:
جتنے ہربل، ہومیو مینو فیکچررز اینلسٹمینٹ کے لیے آئیں، اُن کو ابتدائی 3سال کے لیے اینیلسٹ کر لیا جائے، اور اُن کو اپنے یونٹس کو اپ گریڈ کرنے کی معاونت اور رہنمائی کی جائے۔

(حکیم عرفان اللہ مرزا ایڈووکیٹ، مینوفیکچررز ونگ وفاق اطباء پاکستان چیئرمین ہیں)