عورت، گھر اور غیر اسلامی تصورات – ام عبداللہ

کیا آپ بھی ان اکثریت مردوں کا حصہ ہیں جو بڑے فخر سے سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیوی کو گھر میں اسلامی ماحول دے رکھا ہے، تو ایک منٹ ٹھہریے اور کچھ سوالوں کے جواب دیتے جائیے۔
کیا آپ بھی ایک مشترکہ گھر میں رہتے ہیں جہاں والدین کے علاوہ آپ کے بھائی بھی رہائش پذیر ہیں، والدین کے آپ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ رہتا ہے، بھئ اب کیا کیجیے، آخر کو سب نے یہیں تو آنا ہے. اور دیر رات تک میلا لگا رہتا ہے، بیوی انتظار میں رہتی ہے، کب فراغت ہو۔
زوجہ محترمہ پردے کی بڑی پابند ہیں، مرد مہمانوں سے تو کیا دیوروں سے بھی پردہ کرتی ہیں، اکثر شکایت کرتی پائی جاتی ہیں کہ اتنی گرمی میں بھی ایک منٹ دوپٹہ اتارنے کی فرصت نہیں آتی، تو یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ آپ آپنی شریک حیات کو شرع کے دائرے میں آزادانہ زندگی گزارنے کا اس کا پورا بلکہ آدھا حق بھی دے رہے ہیں۔ یہ اس کا احسان ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھاتی، اپنی پرائیویسی اور اپنی آزادی آپ کی محبت میں قربان کر رہی ہے کیونکہ مشرقی عورت ہے، شوہر کی مالی مشکلات کے آگے زبان بند رکھنا بہتر سمجھتی ہے، ورنہ اسلام تو اسے یہ حق تک دیتا ہے کہ اگر شوہر پسند نہیں تو خلع لے کر علیحدہ ہو سکتی ہے۔
یہ عورت کا حق ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر اس کے گھر میں کوئی داخل نہیں ہو سکتا،
یہ عورت کا حق ہے کہ وہ دوپہر میں اور عشاء کے بعد کسی کو بھی دروازہ کھولنے سے منع کر سکتی ہے، شوہر کے تمام رشتہ داروں کو بھی، چاہے یہ بات شوہر یا ان کے والدین کو ناگوار گزرے۔
یہ عورت کا حق ہے کہ اپنی چار دیواری میں جس طرح کا چاہے مرضی لباس پہن سکتی ہے،
عورت پر فرض نہیں کہ وہ اپنی چار دیواری میں حجاب یا خمار اوڑھے رہے، بلکہ مرد پر فرض ہے کہ اسے علیحدہ گھر لے کر دے، جہاں وہ اپنی مرضی سے رہ سکے۔
ہمارے ہاں مذہبی حلقوں میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہےکہ کسی نامحرم رشتہ دار کے سامنے حجاب اوڑھ کر بیٹھے، نہیں بلکہ عورت اپنے گھر میں حجاب اوڑھنے کی قطعا پابند نہیں، بلکہ ڈھیلے ڈھالے لباس میں اپنے سر کو چادر سے ڈھانپے اپنے فرائض سر انجام دے سکتی ہے۔
ایک اور غلط فہمی جس کا ازالہ کرنا چاہیے کہ ساس سسر کی خدمت عورت پر فرض نہیں۔ ہاں فی نفسہ فرض نہیں ہے، لیکن شرع کے اندر رہتے ہوئے جب شوہر کا ہر حکم فرض ہے تو پھر شوہر کے حکم پر اس کے ماں باپ کی دیکھ بھال کیسے فرض نہیں۔ ہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایک عورت کی اولین ترجیح اس کا شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال ہے، پھر شوہر کے والدین کی خدمت، لیکن اس سب میں عورت کسی طرح بھی اپنے والدین کی دیکھ بھال سے بری الذمہ نہیں ہوتی، وہ اس میں کوتاہی کی صورت میں اللہ کو جواب دہ ہوگی. عورت پر کسی طرح بھی دیور جیٹھ نند کی کسی طرح کی ذم داری نہیں. ہاں والدین سب کے ہیں، ان کی خدمت اور ان کا کام کسی ایک بھائی کے ذمہ لگانا اس کے ساتھ زیادتی ہے، اس کارخیر میں سب کی شمولیت لازمی ہے.
مغرب سے مرعوب اور اپنی خودی پر شرمسار افراد کا پسندیدہ فقرہ ”عورت کا کوئی گھر نہیں“، کیوں بھئ کون سی دلیل ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے. شادی کے بعد شوہر کا گھر اصل میں عورت کا اپنا گھر ہے جسے وہ اپنے کردار و گفتار سے جنت جیسا بنانے کی کوشش کرتی ہے، اپنے بچوں کی بہترین وسائل بروئے کار لا کر پرورش کرتی ہے، اسے پورا حق ہے کہ اس گھر پر وہ جیسے چاہے اپنے اللہ کی قائم کردہ حدود کے اندر رہ کر زندگی گزارے۔
دین نے عورت کو بہت آزادی دی ہے، یہ تو معاشرے کی رسم و رواج ہیں جو اسے پابند کرتے ہیں. مغرب کی طرح اپنا گھر چلانے کے لیے در در کی خاک نہیں چھاننی پڑتی بلکہ اپنے گھر میں ملکہ کی طرح رہے، مرد پابند ہے اس کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کا۔
عورت کو اللہ سبحان و تعالی نے شادی سے پہلے یا بعد، گھر میں قید رہنے کا پابند نہیں کیا بلکہ تعلیم حاصل کرنے، دعوت دین میں اپنا کردار ادا کرنے، سہیلیوں رشتہ داروں سے ملنے اور بعض صورتوں میں مالی طور پر اپنے شریک سفر کا ہاتھ بٹانے کی مکمل آزادی دی ہے، یہاں تک کہ قاضی تک کا عہدہ، عہدہ افتاء یا یونیورسٹی کی وائس چانسلر تک کا عہدہ عورت اختیار کر سکتی ہے، شادی کے بعد معاشرتی سرگرمیوں پر قدغن لگانا صرف ایسے حضرات کا شیوہ تو ہو سکتا ہے جو مذہبی طور پر خود کو حاکم اور عورت کو محکوم سمجھیں لیکن ایک فہم و فراست اور دین کی صحح فکر اپنانے والے مسلمان کا نہیں ہو سکتا۔
اگر ہمیں دین کا صحح فہم ہو اور ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہو، تو آج مغرب ہماری عورت کو بےچارگی کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ہمارے مرد پر ترس کھائے، کیونکہ گھر کی ساری ذمہ داری بھی اسی کی، معاشرے میں فعال کردار بھی اسی کا، حکومتی اور فوجی سطح پر اہم حثیت بھی اسی کی۔
اللہ وہ وقت بھی لائے کہ مسلمان عورت اسلامی ریاست کی وہ بہاریں دیکھے جو ہمارے اسلاف کی خواتین نے دیکھیں، آمین، جہاں خولہ بھرے مجمع میں امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے سراپا احتجاج ہو جاتیں، جہاں امام مالک کی بیٹی اپنے والد کے ساتھ بیٹھ کر حدیث کا درس دیتیں، جہاں اسلام کی بلکہ دنیا کی پہلی یونورسٹی بنانے والی ایک مسلمان عورت تھیں۔