انٹرنیٹ۔ مثبت اور منفی پہلو- ڈاکٹر عبدالقدیر خان

انٹرنیٹ کا استعمال ایک وبا کی طرح پھیل گیا ہے۔ اس کا استعمال لوہے کے استعمال کی طرح ہے کہ آپ اس سے جارحانہ استعمال کے لئے ہتھیار بنا سکتے ہیں مگر دوسری جانب اس سے عمارتیں، سڑکیں، پُل، کاریں، ریل، ہوائی جہاز وغیرہ بنا کر بنی نوع انسان کے استعمال و آرام کی چیزیں بنا سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ منفی و مثبت مقاصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ کچھ اس کو صرف منفی و غلط مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں مگر طلبہ اور اساتذہ اس کو مثبت مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے آپ ہر موضوع اور ہر مشہور شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ آج آپ کی خدمت میں ہماری تاریخ سے متعلق ایک اہم واقعہ پیش کر رہا ہوں، اس کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے ہیں۔ یہ واقعہ خلیفۃالمسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور حکومت کا ہے۔ آپ کو حضرت عمر بن خطابؓ کا ثانی سمجھا جاتا ہے۔ آپ بہت امیر تھے اور شاہانہ طریقہ رہائش تھا مگر جب آپ کو خلیفہ چنا گیا تو آپ نے تمام دولت غرباء میں تقسیم کر دی اور ایک نہایت معمولی سے شخص کی طرح زندگی گزاری۔ آپ نے بمشکل ڈھائی سال حکومت کی مگر یہ دور سنہرا دور مانا جاتا ہے اور انداز حکومت ضرب المثل بن گیا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوست نے مندرجہ ذیل واقعہ مجھے بھیجا ہے۔ یہ چونکہ ہماری تاریخ کا سنہری باب ہے اس لئے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگوں کا ضمیر جاگ جائے اور اخلاقی بہتری کا ذریعہ و وسیلہ بن جائے۔
یہ واقعہ مُسلم سپہ سالار قطان قتیبہ ابن ابی صالح مسلم ابن عمر البہیلی کا ہے جن کو ہم قتیبہ بن مسلم کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کا انتقال 715سن عیسوی میں ہوا تھا۔ یہ تاریخ اسلام کا سنہرا دور تھا۔
عرب سپہ سالار قتیبہ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سمرقند فتح کر لیا تھا، اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے۔ اور یہ بے اصولی ہوئی بھی تو ایسے دور میں جب زمانہ بھی عمر بن عبدالعزیز کا تھا۔ سمرقند کے پادری نے مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبہ کے خلاف شکایت دمشق میں بیٹھے مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیامبر کے ذریعے خط لکھ کر بھجوائی۔ پیامبر نے دمشق پہنچ کر ایک عالیشان عمارت دیکھی جس میں لوگ رکوع و سجود کر رہے تھے۔ اُس نے لوگوں سے پوچھا:کیا یہ حاکم شہر کی رہائش ہے؟ لوگوں نے کہا یہ تو مسجد ہے، تو نماز نہیں پڑھتا کیا؟ پیامبر نے کہا نہیں، میں اہل سمرقند کے دین کا پیروکار ہوں۔ لوگوں نے اُسے حاکم کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔ پیامبر لوگوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے حاکم کے گھر جا پہنچا، کیا دیکھتا ہے کہ ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی ہے۔ پیامبر جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے یہ راستہ بتایا تھا۔ اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے حاکم کے گھر کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ لوگوں نے کہا، ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم کا گھر ہے۔ پیامبر نے بے دلی سے دوبارہ اُسی گھر پر جاکر دستک دی۔ جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہ ہی اندر سے نمودار ہوا۔ میں سمرقند کے پادری کی طرف سے بھیجا گیا پیامبر ہوں کہہ کر اُس نے اپنا تعارف کرایا اور خط حاکم کو دیدیا۔ اُس شخص نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر ہی لکھا:عمربن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام:ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔ مہر لگا کر خط واپس پیامبر کو دیدیا۔ پیامبر وہاں سے چل تو دیا مگر اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے، کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا؟ سمرقند لوٹ کر پیامبر نے خط پادری کو تھمایا، جسے پڑھ کر پادری کو بھی اپنی دنیا اندھیر ہوتی دکھائی دی، خط تو اُسی کے نام لکھا ہوا تھا جس سے اُنہیں شکایت تھی، اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔ مگر پھر بھی خط لیکر مجبوراً اُس حاکم سمرقند کے پاس پہنچے جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہو چکے تھے۔ حاکم نے خط پڑھتے ہی فوراً ایک قاضی (جَمیع نامی ایک شخص) کا تعین کر دیا جو سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔ موقع پر عدالت لگ گئی، ایک چوبدار نے قتیبہ کا نام بغیر کسی لقب و منصب کے پکارا، قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے روبرو اور پادری کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔ قاضی نے سمرقندی سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا؟ پادری نے کہا:قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔
قاضی نے قتیبہ کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں؟ قتیبہ نے کہا:قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے، سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔ سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سرسبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کرلیا۔ قاضی نے قتیبہ کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا:قتیبہ میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی؟ قتیبہ نے کہا:نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کردیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔ قاضی نے کہا:میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔ قتیبہ! اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔ میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور ان کے عہدہ داران بمعہ اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک، گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمرقند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔ اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔ پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین بلکہ ایک مذاق اور تمثیل نظر آرہا تھا۔ چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت۔ اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کرکے قتیبہ کے ساتھ ہی اُٹھ کر جارہا تھا۔ اور چند گھنٹوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے جو شہر کو ویران کرکے جارہے تھے۔ لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتا رہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہو رہی تھی۔ اور اُس دن جب سورج ڈوبا تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کے گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اُن کو ایسے لوگ چھوڑ کر جارہے تھے جن کے اخلاق، معاشرت، برتائو، معاملات اور پیار و محبت نے اُن کو اور اُن کے رہن سہن کو مہذب بنا دیا تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کرپائے، اپنے پادری کی قیادت میں لاالہٰ الا الّلہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور اُن کو واپس لے آئے۔ اور یہ سب کیوں نہ ہوتا، کہیں بھی تو ایسا نہیں ہوا تھا کہ فاتح لشکر اپنے ہی قاضی کی کہی دو باتوں پر عمل کرے اور شہر کو خالی کردے۔ دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصے تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔
مندرجہ بالا واقعہ شیخ علی طنطاوی رحمتہ للہ علیہ کی کتاب (قصص من التاریخ) کے صفحہ نمبر 411(مصر میں 1932 میں چھپی ہوئی) سے لے کر اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
(نوٹ) میں یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مدّت بیتی جب میں تاریخ اسلام کا مطالعہ کر رہا تھا تو میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جب قتیبہ بن مُسلم نے سمرقند کا محاصرہ کیا تو شہر کے اندر سے پادریوں کا روانہ کردہ قاصد آیا اور پوچھا کہ سپہ سالار کا کیا نام ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ قتیبہ (قتیبہ بن مسلم) وہ واپس چلا گیا اور پادریوں کو یہ بات بتائی۔ انھوں نے کہا کہ ہماری دستاویزات میں لکھا ہے سمرقند کو وہ شخص فتح کرے گا جس کے نام کا مطلب اُونٹ کی کوہان ہوگا۔ عربی میں قتیبہ کے معنی اونٹ کے کوہان کے ہیں۔ جب پادری کو یہ بتایا گیا تو اس نے کہا کہ شہر کے دروازے کھول دو اور کسی قسم کی مزاحمت نہ کرو۔ علم نہیں کہ یہ واقعہ درست ہے کہ نہیں، واللہ عالم بالصواب۔