یاد رکھنے کے لیے اور نہ بُھلانے کے لیے
اب وہ ملتا ہے تو بس رسم نبھانے کے لیے
مصلحت کیش نہیں ہم مگر اے جانِ جہاں
تم سے اِک بات چھپائی ہے بتانے کے لیے
ریزہ ریزہ ہوئیں آنکھیں تو سرِ آئینہ زار
آگئے لوگ ترے عکس اُٹھانے کے لیے
ایک دِل تھا جسے پہلے ہی گنوا بیٹھے ہیں
اور اِس گھر میں بچا کیا ہے لٹانے کے لیے
ہم بھی اِس عمرِ رواں میں کہیں بہہ جائیں گے
توُ بھی باقی نہ رہے گا ہمیں پانے کے لیے
اِس نواحِ لب و رُخ سار میں اے دیدہ و دل
ہے کوئی وصل سرا ہجر منانے کے لیے!
خَلوتِ حُسنِ تغافل! کبھی ہم آئیں گے
کُنج لب میں سے کوئی نظم چُرانے کے لیے
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Great
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks