اِحسان اور نیک برتاؤ…اِسلامی معاشرت کا حُسناِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (القرآن)
مدثر جمال تونسوی
پاکیزہ معاشرے کی پہچان پاکیزہ اَخلاق ہیں۔ یہ وہ آفاقی حقیقت ہے جس پر سب قوموں اور تمام ملتوں کا اِتفاق ہے۔
انہی پاکیزہ اخلاق میں سے ایک قابل قدر خوبی ’’احسان‘‘ ہے جسے اردو میں نیک اور اچھا برتاؤ کہا جاتا ہے۔ یہ صفت اچھی عادتوں کی بنیاد اور شریف النفس انسان کی پہچان ہے۔ اس کی ضد عربی میں اِساء ت ہے یعنی براسلوک اور بُرا برتاؤ کرنا جو نہایت ہی مذموم اور قابل نفرت اخلاق میں سے ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
بے شک اللہ تعالیٰ تو تمہیں عدل و احسان اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کے برتاؤ کا حکم دیتا ہے اور وہ تمہیں فحاشی ومنکرات اور ظلم سے منع کرتا ہے، اس نے تمہیں یہ نصیحت کی ہے تاکہ تم سمجھداری کا مظاہرہ کرو ۔ (سورۃ النحل:90)
اس سے واضح ہے کہ ’’احسان‘‘ ایک ایسی عمدہ خصلت اور پیاری عادت ہے جو اللہ تعالیٰ کو بھی محبوب ہے اوراسی لیے اللہ تعالیٰ نے بندوں کی بھلائی کے لیے ہی بندوں کو اس کا حکم دیا ہے۔
چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ تم ہر کام اچھے سلیقے سے کیا کرو تو اس لیے نہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا اپنا کوئی مفاد ہے، نہیں ! بلکہ یہ حکم اس لیے دیا ہے کہ اس میں بندوں کو ہی بھلائی اور خیر خواہی ہے۔ اسی طرح اگر سے یہ حکم دیا ہے کہ لوگ باہم ایک دوسرے کے ساتھ لین دین میں، خرید وفروخت میں، شادی بیاہ میں، معاشرتی تقریبات و ملاقاتوں میں اچھے برتاؤ اور احسان شناسی والی زندگی گزاریں تو یہ بھی اسی لیے کہ اس میں خود بندوں کا ہی فائدہ ہے کہ اس طرز عمل سے ایک خوبصورت اور پُرسکون معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ عبادت اچھے انداز سے کرو تواس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی عبادت کے محتاج ہیں بلکہ اس لیے کہ یہ انسان کے سلیقہ مند اور احسان شناس ہونے کی نشانی ہے ، ورنہ اپنے خالق و مالک کی بے شمار نعمتوں سے صبح و شام اور زندگی کے ہر لمحے میں لطف اندوز ہو کر اسی کی عبادت سے روگردانی کر لینا یہ کسی سلیم الفطرت اور احسان شناس بندے کا کام نہیں ہوسکتا ۔
معلوم ہوا کہ بندہ جب بھی ’’احسان‘‘ والی صفت کو اپناتا ہے تو یہ صفت خود اسی انسان کو نکھار دیتی ہے، اس کے طرز عمل کو منفرد بنادیتی ہے، اسے لوگوں کی نظروں میں ممتاز اور قابل تعریف بنادیتی ہے اور پھر یہی نہیں بلکہ ایسے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی بھی محبت نصیب ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
بے شک اللہ تعالیٰ نیکو کار لوگوں سے محبت فرماتے ہیںاِنَّ رَحْمَۃَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
اسی طرح اچھا برتاؤ کرنے والے انسان، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بھی قریب ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیکو کار لوگوں کے قریب ہے۔(الاعراف:56)
اِحسان کی مختلف شکلیں اور متعدد صورتیں ہیں۔ چند اہم درج ذیل ہیں:۔
(۱) دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا:
ہر انسان کو اپنے سوا جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ان میں والدین بھی شامل ہیں، بھائی بہن بھی شامل ہیں، رشتہ دار اور دوست احباب بھی شامل ہیں، جاب پیشہ افراد کے لیے ان کے سینئرز اور ان کے جونیئرز وغیرہ شامل ہیں، تاجروں کے لیے خریدار، خریداروں کے لیے تاجر، زمینداروں کے لیے کسان اور کسانوں کے لیے زمیندار … پھر محلے کے پڑوسی، سفر کے ساتھی ، تعلیم کے دوران ہم درس طالب علم اور بھی متعدد جگہوں پر بلکہ انسانی زندگی کے قدم قدم پر انسان کو دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے …اب اسلامی اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ان سب کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔
والدین کے ساتھ ، رشتہ داروں کے ساتھ ، مساکین اور غریب لوگوں کے ساتھ خصوصی طور پر احسان کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور قرآن کریم نے تو یہ بتایا ہے کہ بنی اسرائیل سے اس کا باقاعدہ عہد لیا گیا تھا۔ چنانچہ ارشاد ہے:
اور یاد کرووہ وقت جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور اپنے والدین، اپنے رشتہ دار، یتیم اور مسکین لوگوں کے ساتھ اچھابرتاؤ کرو گے اور تمام لوگوں کو اچھی بات کہو گے اور نماز قائم کروگے اور زکوۃ دیتے رہو گے ، مگر ہوا یہ کہ تم سے تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ سب نے ہی ان احکامات سے روگردانی کر لی اور تم تو ہو ہی روگردانی کرنے والے۔ (البقرۃ:83)
اس آیت کریمہ سے واضح ہوا کہ درج ذیل لوگ خصوصی طور پر احسان کے مستحق ہیں:
والدین
رشتہ دار
یتیم بچے اور بچیاں
مسکین اور غریب لوگ
پھر اللہ تعالیٰ کا بندوں پر یہ احسان دیکھیے کہ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ لوگوں سے اچھی بات کہا کرو، اس میں یہ اشارہ ہوا کہ اگر کوئی شخص اوپر ذکرکردہ لوگوں کے ساتھ اچھابرتاؤ کرنے کے لیے کوئی مال یا عہدہ وغیرہ نہیں رکھتا تو اسے چاہئے کہ کم از کم ایسے لوگوں سے جب بھی بات کرے تو اچھے انداز سے بات کیا کرے ۔ یہ اچھے سلیقے سے بات کرنا بھی احسان اور نیکی میں شامل ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں صاف فرمادیا گیا ہے کہ : یہ بھی بھلائی اور نیکی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملاقات کرو!
کتنے ہی لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بسا اوقات کسی جاننے والا کا خندہ پیشانی سے ملاقات کرنا دُکھ درداور غم کو کس قدر ہلکا کردیتا ہے!!
عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا: یہ بھی اسلام کی خصوصی تعلیمات میں سے ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے خبردار کرتے ہوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا: سنو غور سے سنو! عورتوں کے بارے میں مجھ سے اچھے برتاؤ کی وصیت اور تاکید لے لو۔ پھر ارشاد فرمایا: سنو! تمہارے کچھ حقوق بیویوں پر لازم ہیں اور بیویوں کے کچھ حقوق تم پر لازم ہیں۔ تفصیل یہ ہے کہ بیویوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی اورناپسندیدہ شخص کو نہ آنے دے اور نہ ہی گھر میں تمہارے کسی ناپسندیدہ شخص کو آنے دے اور تم پر بیویوں کا حق یہ ہے کہ ان کے لباس اور کھانے پینے میں تم انہیں اچھی چیز فراہم کرو ۔ (ترمذی، ابن ماجہ، سنن نسائی)
پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا: یہ بھی اسلامی اخلاقیات کا لازمی حصہ ہے۔ جس سے شخص کے بُرے برتاؤ سے اس کے پڑوسی تنگ ہوں وہ کبھی اسلامی تعلیمات کی رو سے نیک انسان شمار نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا تھا کہ: مجھے یہ کیسے معلوم ہوگا کہ میں اچھا برتاؤ کرتا ہوں یا برا سلوک کرتا ہوں؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جب تم اپنے پڑوسیوں کے بارے میں سنو کہ وہ تمہارے بارے میں اچھے برتاؤ کا کہہ رہے ہیں تو سمجھ لو کہ تم اچھا برتاؤ کرنے والے ہو اوراگر وہ یہ کہہ رہے ہوں کہ تم بُرا برتاؤ کرنے والے ہو تو سمجھ لو کہ تم واقعی بُرا برتاؤ کرتے ہو۔ (سنن ابن ماجہ)
(۲)جو بھی کام کرنا اسے اچھے انداز سے کرنا، مثلا علم حاصل کرنا تو اچھے انداز سے علم حاصل کرنا تاآنکہ اس میں کمال حاصل کرلے ، اسی طرح کوئی بھی کام کرنا تو اچھے انداز سے کرنا تاکہ وہ کام لوگوں کی نظر میں پسندیدہ اور لائق تقلید بن جائے۔ دنیا میں کتنے ہی لوگ تعلیمی اداروں بناتے ہیں مگر کامیابی انہیں کے قدم چومتی ہے جو اچھے ادارے اور اچھی تعلیم وتربیت کابندوبست کرتے ہیں۔ چنانچہ احسان کی دوسری شکل یہی ہے کہ جو بھی کام کیا جائے اچھے اندازسے کیا جائے۔ نبی کریمﷺ نے تو یہاں تک فرمادیا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے فرض کردیا ہے کہ ہر کام اچھے انداز سے کیا جائے… لہٰذا جب تم کوئی جانور ذبح کرو توسلیقہ مندی سے ذبح کرو اور اپنی چھری تیز کر لیا کرواوراس طرح جانور کو (جلد از جلد)راحت پہنچایا کرو۔(صحیح مسلم۔ رقم الحدیث1955)
(۳)اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اِحسان: اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو بھی عبادت کی جائے وہ تمام شرائط اور پورے آداب کے ساتھ بجالائی جائے اور اس میں ہر قسم کی ریاء کاری ، دکھلاوے اور کسی بھی دوسری بُری نیت سے پوری طرح اجتناب کیاجائے۔ چنانچہ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ : احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو بے شک وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ (بخاری و مسلم)
بعض اہل علم نے ایک نکتے کی بات کہی ہے کہ احسان کے دو درجے ہیں: ایک واجب و ادنیٰ درجہ اور اعلی درجہ…ادنی واجب درجہ یہ ہے کہ جس کسی کا جو بھی حق آپ پر لازم ہے اسے اداء کیا جائے۔ اور اعلی درجہ یہ ہے کہ صاحبِ حق کو اس کے لازمی حق سے زائد کچھ دیدیا جائے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو احسان کرنے والا بنائے ، محسنین میں شامل فرمائے اور اس احسان کی برکت سے ہمیں اپنی محبت اور قرب کا خاص مقام عطاء فرمائے۔
٭…٭…٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
jazak Allah nyc sharing
intelligent086 (02-14-2017)
پسند ، رائے اور حوصلہ افزائی کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
intelligent086 (02-17-2017)
بہت بہت شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Nice SharingJazak Allah
t4s
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
intelligent086 (11-23-2017)
بہت بہت شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks