وہی کامیاب ہے جو …؟



زوہا بخاری
ہم عورت کو کیا سمجھتے ہیں؟ کوئی اس کے وجود کو کائنات کا حسن قرار دیتا ہے تو کوئی اسے جنس سمجھ کر’’کاروبار ‘‘کرتا ہے۔ رشتے تو بہت ہیں اور ان رشتوں کی تحریم پر بھی کوئی سوال نہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم اس کو اس کی پہچان نہ دے سکے۔ آئیے آپ کو ایک واقعہ سناتے ہیں جو یہ طے کرے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور عورت کی تحریم کیا ہے۔ کیا اس کی کامیابی اسی میں ہے کہ جو مرد چاہے وہی ہو۔ میرے ایک قریبی رشتہ دار کو گزشتہ دنوںاللہ نے بیٹے سے نعمت سے نوازا۔ فون کیا اور مبارکباد دی۔ مزید حال ا حوال پوچھنے پر ا نہوں نے پُرجوش انداز میں کہا کہ ــمیرا یہ بیٹا میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اللہ تعالی میری زندگی یوںمکمل کریں گے۔ ا ب تو چاروں اطراف خوشیاں ہی خوشیاں نظر آتی ہیں۔ ہر کوئی مبارکبادیں دے رہا ہے۔ کسی نے جینے کی دُعا دی تو کسی نے میرے بھاگ کو اللہ کی رحمت قرار دیا۔ مجھے عزت دی جا رہی ہے، خدمتیں ہو رہی ہیں اور سب سے بڑی بات کہ میرا شوہر مجھ سے راضی ہے۔ میر ے دیوروں کی خوشی بھی دیدنی ہے۔ بھاگ بھاگ کر میرے کام کر رہے ہیں۔ دیورانیاںواری صدقے ہوتے مٹھائیاں بانٹ رہی ہیں۔ اب آپ خود ہی بتائیں، مجھے بھلا اور کس چیز کی خواہش ہو گی۔مجھے وہ وقت نہیں بھولا جب مسلسل دو بیٹیوں کی پیدائش پر مجھے کوسہ گیا، بے دردی سے طعنے د ئیے گئے،عزت نفس مجروح کی گئی۔میری سمجھ سے باہر تھا کہ آخر مجھے کس جرم کی سزا دی جا رہی تھی۔میرا شوہر، ساس ، سسر، دیور اور دیورانیوںسب کے سب دشمن بن گئے۔ مجھے آج اس نفرت کی سمجھ آ ئی کہ مجھ پر اتنے ظلم کیوں ڈھائے جا رہے تھے ۔اب میں ایک بیٹے کی ماںہوںاور میری عزت بلندیوں پر ہے ۔جونہی یہ خوبصورت ستارہ میری زندگی میں چمکا، زندگی ہی بدل گئی ہے ۔ اسی لئے ا س مسرور موقع پر میںہر ماںکو ایک ہی بات کہنا چاہوںگی کہ اگراس ظالم دنیا میںکامیابی اورعزت سے رہنا چاہتی ہیںاللہ سے بیٹے کی دعا مانگیں وہ سب جاننے والا ہے ۔وہ اپنی دھن میں بولیں جا رہی تھیں اور میںسوچوں کی کسی اور دنیا میں کھو گی۔ فون بند کیا اور حیران وپریشان کافی دیر خاموش بیٹھ سوچتی رہی کہ ہم اس جدید دور میں بھی ہم اُسی جہالت کے زمانے میں جی رہے ہیں جس میں بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دی جاتی تھی، یہاں تک کہ انہیں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ حیرانی ہوئی ہم21ویں صدی میں رہتے ہوئے بھی بہت پیچھے ہیں جبکہ ہمارے رسولﷺ کی آمد کے بعد کیسے حالات تبدیل ہوئے اور کس طرح بیٹیوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک سمجھاجانے لگا۔ انسان ہونے کے ناطے ہماری کچھ اخلاقیات ہیں جس میں اولاد کی برابر ی پر بھرپور زور دیا گیا ہے۔ ویسے بھی اولاد کا حصول کسی کے بس کی بات نہیں یہ اللہ کے راز ہیں لیکن یہ بات کیسے سمجھائیں۔ بیٹی کا مقام اسلام کی روح سے تو اور بھی زیادہ ہے۔اس کی پیدائش کو رزق میں کشادگی کاسبب کہا گیا۔ پھر بھی معلوم نہیں ہم کس ڈگر پر چل نکلے ہیں اور بیٹی کو بوجھ سمجھتے ہوئے اس سے کیوں منہ موڑتے ہیں۔ذرا رسولِ پاکﷺ اور حضرت بی بی فاطمہ زہراؓ کی محبت اور احترام کو مشعلِ راہ بنا کر دیکھیں تو بیٹیاں بھی اتنی ہی پیاری لگیں گی جتنے کے بیٹے۔ ٭…٭…٭