کائنات کی حقیقت


محمد احمد
کائنات کی میکانکی حقیقت بیان کرنے کے لیے 3 باتوں کی ضرورت ہے: وقت (زماں) فاصلہ اور کمیّت(Mass) ،چونکہ وقت اور فاصلہ اضافی مقدار ہیں، اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ کسی شے کی کمیّت، اس کی حرکت کی مناسبت سے ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ نظریۂ اضافیت کے عملی نتائج اسی اصول سے نکلے ہیں ،یعنی کمیّت کی اضافی صورت سے۔ کمیّت کا تعلق:عام بول چال میں ہم کسی شے کی کمیّت اور اس کے وزن کو ہم معنی سمجھتے ہیں۔مگر سائنس کی زبان میں لفظ ’’کمیّت‘‘ سے مراد کسی شے کی وہ قوتِ مزاحمت (Resistance) ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی حرکت کو بدلنے سے روکتی ہے۔ مثال کے طورپر آپ کے سامنے مال سے لدی ہوئی ایک لاری کھڑی ہے اور پاس ہی ایک رکشا بھی۔ آپ کے لیے لاری کو حرکت میں لانا ممکن نہ ہوگا، لیکن معمولی قوت استعمال کرکے رکشا کو حرکت میں لا سکتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مال سے لدی ہوئی لاری اپنی کمیّت کی بدولت اپنی کیفیت کو بدلنے (یعنی حرکت میں لانے) میں زیادہ مزاحمت پیش کرتی ہے، رکشا کم کمیّت کی وجہ سے مزاحمت کم کرتا ہے۔ یہ نئی بات ہوئی۔ اب تک طبیعات میں جو اصول بتائے گئے، ان سے تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ مال سے لدی ہوئی لاری کو چاہے فی گھنٹہ 60 میل کی رفتار سے چلایا جائے، یا 60,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے فضا میں اڑایا جائے، اس کی کمیّت برقرار رہے گی۔ رفتار کے بدل جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگر آئن سٹائن نے جہاں کئی دوسرے ’’مسلّمہ‘‘ تصورات منہدم کر دیئے وہیں یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ یہ خیال غلط تھا۔متحرک شے کی اصل کمیّت باقی نہیں رہتی، بلکہ رفتار کے ساتھ ساتھ بڑھتی گھٹتی ہے۔ اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ آخر ہمارے قدیم ماہرانِ طبیعات کو یہ بات کیوں نہیں سوجھی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان بیچاروں کے پاس ایسے نازک آلات کہاں تھے جن سے رفتار کی کمی بیشی کی بدولت کمیّت کا خفیف سے خفیف فرق معلوم کیا جا سکتا ہو! یہ فرق تو تب ہی معلوم ہو سکتا ہے جب کوئی شے، تقریباً روشنی کی رفتار سے حرکت میں ہو۔ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ روشنی کی لگ بھگ برابر رفتار سے پھینکی جانے والی سلاخ کی لمبائی میں کمی واقع ہوتی ہے اور جب رفتار روشنی کی رفتار کے بالکل برابر ہو جائے تو سلاخ کی لمبائی صفر ہو جاتی ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ رفتار بڑھائی جانے والی ایک شے کی لمبائی میں تو کمی واقع ہو جائے، لیکن کمیّت زیادہ ہوتی چلی جائے؟ ہاں، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی سلاخ یا شے کی لمبائی کم یا زیادہ ہوتی ہے تو اس سے اس کی چوڑائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ انقلابی نتیجہ:آئن سٹائن نے کمیّت میں اضافے کی پیمائش کے لیے جو مساوات تیار کیا،وہ اس کے نظریۂ اضافیت کے مساوات سے ملتا جلتا تھا۔ اس وقت تک طبیعات کے دو بڑے اہم کلیے تسلیم شدہ تھے: ایک بقائے توانائی (Conservation of Energy) اور دوسرا بقائے کمیّت(Convervation of Mass) کا۔یہ دونوں کلیے ایک دوسرے سے بالکل غیر متعلق نظر آتے تھے۔ لیکن نظریۂ اضافیت نے ان دونوں کو مربوط کر دیا۔ کمیّت کی اضافیت سے آئن سٹائن جس نتیجے پر پہنچا، اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں عظیم انقلاب پیدا کر دیا۔ اس مسئلے پر آئن سٹائن کے سوچنے کا انداز کچھ اس طرح تھا، ’’کسی متحرک شے کی کمیّت کا انحصار اس شے کی رفتار پر ہوتا ہے۔ لیکن رفتار خود بھی ایک حرکی توانائی(Kinetic Energy) ہے۔ اس لیے اس شے کی کمیّت میں جو تبدیلی ہوگی، وہ اس توانائی کی تبدیلی سے ہو گی‘‘۔ اس طریقۂ استدلال سے یہ انقلابی نتیجہ ظاہر ہوا کہ توانائی میں کمیّت ہوتی ہے! کیسا عجیب و غریب انکشاف! اب تک دنیا یہی مانتی چلی آئی تھی کہ بجلی ہو یا مقناطیس، روشنی ہو یا آواز یہ سب توانائی کی قسمیں ہیں، جن کا نہ کوئی وزن ہے اور نہ ان میں کمیّت پائی جاتی ہے۔ مگر آئن سٹائن کے کمیّت کی اضافیت کے نظریے سے یہ سارا طلسم یک لخت پاش پاش ہو گیا۔ (سید شہاب الدین دسنوی کی کتاب ’’ آئن سٹائن :داستان ِ زندگی‘‘ سے اقتباس) ٭…٭…٭