فرقہ ناجیہ ( کامیاب) کےخصائص فضیلتہ الشیخ:

محمدبن صالح عثیمین رحمه الله
••••••••••••••••••••••••
سوال :ـ
کامیاب اورفرقہ ناجیہ (نجات پانے والا گروہ)کی اہم اورظاہر خصوصیات اورصفات کیا ہیں ؟
اورکیاان خصوصیات کےناقص ہونےسےانسان فرقہ ناجیہ سےنکل جا تا ہے ؟

جواب:ـ
الحمدللہ
فرقہ ناجیہ کی اہم اور ظاہر خصوصیات یہ ہیں کہ :
عقیدہ وہ ہو جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ،
عبادات بھی اس طرح ہوں جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ادا کرتےتھےاوراسی طرح
اخلاق اورمعاملات میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتےہوں ۔
توآپ یہ چارچیزیں اورخصوصیات فرقہ ناجیہ میں ظاہر اورواضح پائیں گے ۔
آپ فرقہ ناجیہ کوعقیدہ کےاعتبارسےدیکھیں گےکہ توحیدربوبیت اورتوحیدالوہیت اورتوحیداسماءوصفات میں ان کاعقیدہ وہی ہوگاجوکہ کتاب وسنت میں بیان کیاگیا ہے اوروہ اس عقیدے پرمضبوطی سےعمل کریں گے ۔
اورعبادات کے اندر بھی آپ فرقہ ناجیہ کودیکھیں گےوہ عبادات کی ساری کی ساری اقسام پراسی طرح عمل پیراہیں جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کرتےتھے۔
وہ عبادات کی صفات اوراس کے اوقات اورزمانے اوراسباب اورمکان میں وہی طریقہ اختیارکرتےہیں جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کا رتھا ۔
آپ انہیں نہیں دیکھیں گےکہ وہ دین میں بدعات نکا لتےاوران پرعمل کرتے ہیں ، بلکہ وہ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاانتہائی ادب واحترام کرتے ہیں اوراللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جوچیزمشروع نہیں کی اورنہ ہی اس کی اجازت دی ہے یہ لوگ اللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سےآ گےبڑھتے ہوئےاسے عبادات میں شامل نہیں کر تے ۔
اوراسی طرح آپ اخلاقیات میں بھی انہیں دوسروں سےممتازدیکھیں گےمسلمانوں سےمحبت اوران کے لئے خیرچاہتےہیں ملنےجلنےمیں ہشاش بشاش چہرہ اوربولنے میں کلام شیريں استعمال کرتے ہیں اوراپنے سینے اوردل کووسیع اورکھلا رکھتے ہیں شجاعت اوربہادری بھی ان میں پائی جاتی ہے کرم وسخاوت میں بھی دوسروں سےامتیازرکھتے ہیں اس کے علاوہ دوسرے اخلاق میں بھی ۔
اورجب معاملات کا معاملہ آئے توآپ اس میں بھی انہیں آ پ انہیں دیکھیں گےکہ وہ لوگوں سےمعاملات میں سچائی اورصدق کواستعمال کرتے ہیں اوراس چیزکوبیان بھی کرتے ہیں جسےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کرنے کا کہا ہے ۔
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ـ
( خریداراورفروخت کرنےوالے کوجداہونےسے پہلے پہلے اختیارحاصل ہے اگرتووہ سچائی سےکام لیتےہیں اور( عیب وغیرہ کو ) بیان کرتے ہیں توان کے لئے بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے اوراگرجھوٹ سے کام لیتے اورعیب کوچھپاتے ہیں توان کی بیع اورسودے میں برکت ختم کردی جاتی ہے ) ۔
اوران خصوصیات میں سے نقص ہونےکی بنا پرانسان ہردرجے میں ان کے عمل کے اعتبارسے فرقہ ناجیہ میں سےنکل نہیں جاتا ،
لیکن توحیداورعقیدہ میں نقص ہونے کی وجہ سے بعض اوقات فرقہ ناجیہ میں نکل جاتا ہے مثلا:
��اخلاص کانہ ہونااوراسی طرح بعض
�� بدعات کی بنا پر بھی انسان فرقہ ناجیہ سےنکل جاتا ہے کہ وہ ایسی بدعت کا مرتکب ہوجواسےفرقہ ناجیہ سےخارج کردے ۔
لیکن اخلاق اورمعاملات کے مسئلہ میں نقص کی بناپر خارج نہیں ہوگا بلکہ اس سےاس کا مرتبہ ضرورکم ہوگا۔
اخلاق کامسئلہ تفصیل کا محتاج ہے ، بیشک اس میں سب سےاہم چیزحق پراتفاق اوراجتماع ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالی نے بھی ہمیں وصیت فرمائی ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے : ـ
{ اللہ تعالی نےتمہارے لئےوہی دین مقررکیا ہے جس کےقائم کرنے کااس نےنوح ( علیہ السلام ) کوحکم دیاتھااورجسےہم وحی کے ذریعہ تیری طرف بھیج دیااورجس کاتا کیدی حکم ہم ابراہیم اورموسی اورعیسی ( علیہم السلام ) کودیاتھا کہ اس دین کوقائم رکھنا اوراس کے متعلق اختلاف نہ کرنا }
۔الشوری ۔(13) ـ
اوراللہ تعالی نےیہ خبر بھی دی کہ جنہوں نےاپنے دین میں اختلاف کیا تووہ گروہوں میں بٹ گئےان سےنبی صلی اللہ علیہ وسلم بری ہیں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کاارشاد ہے : ـ
{ بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کوجداجدا کردیا اورگرو ہوں میں بٹ گئےآپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں } ۔الانعام ۔(159) ـ
��توکلمہ میں اتفاق اوردلوں کاایک ہونافرقہ ناجیہ ۔ اہل سنت والجماعت ۔کی سب سے اہم اورظاہر خصوصیت ہے ، تواگران میں کوئی کسی اجتہادی معاملات میں اجتہادکی بنااختلاف پیداہوجاتا ہے
اس کی بنا پران میں بغض وعناداورکینہ ودشمنی پیدانہیں ہوتی بلکہ وہ اس بات کااعتقادرکھتے ہیں کہ اگرچہ ان میں یہ اختلاف پید اہوا ہے اس کےباوجودوہ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔
حتی کہ ان میں وہ شخص اس کے پیچھے جس کے متعلق اس کاخیال ہے کہ وہ بے وضوء ہے نماز پڑ ھ لیتا ہے لیکن نماز پڑ ھا نے والےامام کے خیال میں یہ ہے کہ وہ بے وضوء نہیں ۔
اس کی مثال اس طرح لے ليں کہ ایک شخص اس امام کے پیچھے نماز پڑ ھتاجس نےاونٹ کا گوشت کھایا اوراس امام کے ہاں اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء نہیں ٹوٹتا اورمقتدی کاخیال ہے کہ وضوء ٹوٹ جاتا ہے لیکن اس امام کے پیچھے نمازپڑھنی صحیح ہے اگروہ اکیلانماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح نہیں ، یہ سب اس لئے ہے وہ اسے اس اختلاف کو ان مسائل میں اجتہادی اختلاف سمجھتے ہیں جن میں اجتہاد ہوسکتا ہے جو کہ حقیقی اختلاف نہیں ۔
کیونکہ دونوں فریقوں میں سے ہرایک اس دلیل پرچل رہا ہے جسےچھوڑ ناجائز نہیں ان کی رائے یہ ہے کہ ان کے بھائی نے اگرکسی عمل میں دلیل پر چلتے
ہوئے ان کی مخالفت کی ہے تو حقیقت میں اس نے ان کی موافقت کی ہے کیونکہ وہ:
�� دعوت دیتے ہیں کہ دلیل کے پیچھے چلووہ دلیل جہاں بھی ہو، تواگر وہ کسی ایسی دلیل کی موافقت میں ان کی مخا لفت کرتا ہے جوکہ اس کے پاس ہے توحقیقت میں اس نے ان کی موافقت کی ہے ۔
کیونکہ وہ اس پر چل رہا ہے جس کی وہ دعوت دیتے اوراس کی طرف راہمنائی کرتے ہیں کہ کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرعمل کیا جائے ۔
بہت سےاہل علم پریہ بات کوئی پوشیدہ نہیں اس جیسےمعاملات میں صحابہ ا کرام کے درمیان جواختلاف ہواحتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں بھی اوران میں سے کسی نے بھی کوئی سختی نہیں کی ۔
اس کی مثال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ احزاب سے واپس لوٹےتوآپ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اورانہیں یہ اشارہ دیا کہ وہ بنوقریظہ کی طرف نکلیں جنہوں نے عہد کوتوڑا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کے خلاف نکلنےکا کہا اورفرمایا : ـ
( تم میں سے ہرایک عصر کی نماز بنوقریظہ میں جا کرپڑ ھے )
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ سے بنوقریظہ کی طرف نکلے توعصرکی نماز کا وقت ہوگیا،لھذا بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے نماز میں تاخیر کرلی حتی کہ وہ بنوقریظہ نماز کا وقت نکل جانے کے بعد پہنچے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
( تم میں سے ہرایک عصر کی نماز بنوقریظہ میں جا کرپڑ ھے )
اوربعض نےنماز کو وقت پر پڑ ھاان کا قول یہ تھا کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارادہ ہمیں جلدی نکلنے کا ہے نہ کہ نماز کووقت سےموخرکر نے کا ۔تویہ سب کے سب صواب پر ہیں ۔لیکن اس کے باوجودنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں فریقوں میں سے کسی ایک پر بھی کوئی کسی قسم کی سختی نہیں کی ، اورنہ ہی اس نص کے سمجھنے میں اختلاف کی بنا پران میں سے کسی ایک نے دوسرے پربغض وعنادنہیں رکھا ۔
اس لئے میرایہ خیال ہے کہ وہ مسلمان جوکہ اپنے آپ کواہل سنت والجماعت کہتے ہیں ان پرواجب ہے کہ وہ ایک امت اورجماعت بنیں اوران کے درمیان یہ فرقہ اورگروہ بندی اورحزبیت صحیح نہیں یہ ایک گروہ کی طرف اوردوسراشخص دوسرے گروہ کی طرف اورتیسراتیسرے گروہ کی طرف نسبت کررہا ہے ۔
اوراسی طرح وہ ایک دوسرے سے اپنی تیزطرار زبا نوں کے ساتھ جھگڑا کرر ہے ہیں اور آپس میں دشمنی اوربغض وعداوت صرف اس اختلا ف کی وجہ سے کرر ہے ہیں جس میں اجتہادجائز ہے مجھے کسی خاص گروہ اور جماعت کانام لینے کی ضرورت نہیں لیکن عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے وہ اس سے سمجھ جاتا اوراس کے لئے اس سے معاملہ واضح ہو جاتا ہے ۔
میراخیال اور رائے یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت پرواجب اورضروری ہے کہ وہ متحد ہوجائیں حتی کہ اگر وہ ان چیز وں میں تھو ڑا بہت اختلاف کرتے ہیں جن کا تقاضا ان کی فہم اورسمجھ کے اعتبار سےنصوص کرتی ہیں کیونکہ یہ ایسامعاملہ ہے جس میں الحمدللہ اللہ رب العزت کے فضل وکرم وسعت ہے ۔
اوراہم چیز یہ ہے کہ دلوں کوملنا
چاہۓ اورکلمہ اوربات میں اتفاق ہوناچاہۓ اوراس میں کوئی کسی قسم کا شک وشبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں اختلاف کا بیج بویا جائے اوروہ آپس میں ایک دوسرے سے دست وگریبان ہوں اگرچہ مسلمانوں کے ان دشمنوں کی دشمنی واضح ہو یا پھر وہ ظاہری طور پر تواسلام اورمسلمانوں سے دوستی اور محبت کے دعوے کرتے ہوں لیکن اندرونی طور پر وہ اسلام اورمسلمانوں کے دشمن اوراس کی جڑ یں کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں ان کا باطن ظاہر کی طرح نہیں ۔
توہم پر یہ واجب ہے کہ ہم اس امتیاز کوجوکہ فرقہ ناجیہ کا امتیاز ہے اسے اپنائیں اوروہ اتفاق واتحاد ہے اورسب ایک بات پرجمع ہوجائیں ۔

دیکھیں: مجوع فتاوی ورسائل ۔فضیلتہ الشیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی
جلد نمبر۔(1) ۔
صفحہ نمبر۔(38 ۔ 41)ـ