intelligent086 (10-16-2016)
ڈنگ ٹپانی
منظوم افسانہ
اللہ بخشے تایا نواب لڑکوں کو
چوکوں میں کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے
رشتہ میں وہ کسی کے کچھ نہ تھے
بوڑھے تھے حیادار تھے
سب انہیں تایا کہتے تھے
اچھا دور تھا اچھے لوگ تھے
ہر کس کی عزت اپنی عزت جانتے تھے
سب کی بھنیں اپنی بھنیں تھیں
آہ! وہ مر گئے
اچھی روائتیں بھی مر گئیں
آنکھوں میں شرم تھی حیا تھی
آج کوئی کوئی پرانا بات کرے تو کہتے ہیں:
چھوڑو جی دقیانوسی ہے
بیبیاں بادوپٹہ یا بابرقعہ گھر سے نکلتی تھیں
آج برقعہ تو دور رہا دوپٹہ بھی غائب ہو گیا ہے
شریف سے اور باحیا سے رہو تو
کڑیاں مذاق اڑاتی ہیں
چھیڑو تو پلے پڑ جاتی ہیں
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن
اسی کو تو کہتے ہیں
بیدا اور شیدا محلہ کے چوک میں کھڑے تھے
لایعنی گپیں ہانک رہے تھے
تانک جھانک دیدار بازی کا عمل جاری تھا
کوئی ناک چڑھا کر کوئی مسکرا کر گزر جاتی
ہاجاں تیلن کا بھی ادھر سے گزر ہوا
منہ متھے لگتی تھی شیدا نہ رہ سکا
اس نے پرامید پراسلوب فوجی سلیوٹ کیا
وہ کھل کھلائی
ہنسی اس کی پورے منہ کی تھی
وہ گزر گئی بات آئی گئی ہو گئی
وہ پھر سے گپوں میں جھٹ گئے
اسی شام ہاجاں تیلن بیدے کے گھر آئی
بیدے کی ماں سے کہنے لگی
بیدے نے محلہ کے چوک میں
مجھے چھڑا ہے
مرا ویر ادھر نہ تھا
ورنہ
پیر پر ڈکرے کر دیتا
بیدے کی ماں شکایت سن کر ہکی بکی رہ گئی
اس نے غصے سے بیدے کو آواز دی
آیآ ماں جی کہہ کر
کچھ ہی دیر بعد چھت سے نیچے اتر آیا
وہ گڈی اڑا رہا تھا
اتنی دیر میں ہاجاں تیلن جا چکی تھی
بیدے کی ماں نے بنا کچھ سنے
بیدے کی لہہ پہہ کر دی
بیدے نے تو اسے چھیڑا ہی نہ تھا
یہ گلاواں مفت میں اس کے گلے آ پڑا تھا
بیدے کی ماں بےچاری کیا جانے
رولا چھیڑنے کا تھا ہی نہیں
وہ شیدے کی پسند تھی
شیدا مگر ہاجاں کی دل آنکھ میں نہ تھا
ہاں وہ بیدے کی دیونی تھی
بیدے کو کیا مری پڑی جو اس نے نہ چھیڑا
پر کیا کریں
چھماں بیدے کے دل کی رانی تھی
سوہنی تو تھی ہی
ہاجاں سے بڑھ کر سیانی تھی
یہ بات تو
فرشتوں کے لکھے پر
ناحق پکڑے جانے والی کی سی تھی
کیسی بات ہے یہ
شادی کرنے کے ارادے دور تک نہ تھے
ہاں مگر دو طرفہ محض ڈنگ ٹپانی تھی
intelligent086 (10-16-2016)
حقیقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیئر کرنے کا بہت بہت شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
shukarriya janab
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks