میں ایک دفعہ ایک بابا جی سے ملنے گیا. تهوڑی دیر بعد بابے نے میری طرف دیکها اور پوچها کہ تم چاہتے کیا ہو. میں نے عرض کیا، کیا آپکو وقعی سونا بنانا آتا ہے.
بابے نے میری طرف دیکها اور ہاں میں سر ہلا کے بولا.
ہاں میں نے جوانی میں سیکها تها. میں نے عرض کیا کہ آپ مجهے یہ نسخہ سیکها سکهتے ہیں. بابے نے میری طرف دیکها اور پوچها تم سیکهہ کہ کیا کرو گے. میں نے عرض کیا میں امیر ہو جاءوں گا. بابے نے پهر پوچها تو تم دولتمند ہوکر کیا کرو گے. میں نے کہا میں دنیا بهر کی نعمتیں خریدو گا. بابے نے کہا نعمتیں خرید کے کیا کرو گے. میں نے جواب دیا میں خوش ہونگا مجهے سکون ملے گا. بابے نے پهر میری طرف دیکها کہ گویا تمہیں سونا اور دولت نہیں، سکون اور خوشی چاہیئے. میں خاموش رہا کیونکہ اس وقت میں نوجوان تها اور دنیا کے ہر نوجوان کی طرح میں دولت کو سکون اور خوشی سمجهتا تها. لیکن بابے کے پوچهنے پے میں نے ہاں میں سر ہلا دیا. بابے نے لمبا کہکا لگایا اور پهر تهوڑی دیر بعد بولا. کاکا میں تمہیں سونا بنانے کی بجائے انسان کو بندہ بنانے کا طریقہ کیوں نہ سکها دوں. میں تمہیں پرسکون رہنے کا گر کیوں نہ سکها دوں.
میں خاموشی سے اس کی طرف دیکهتا رہا اور وہ بولا.
انسان کی خواہشات جب تک اس کے وجود اور عمر سے لمبی رہتی ہیں. یہ اس وقت تک انسان رہتا ہے. تم اپنی خواہشوں کو اپنی عمر اور وجود سے چهوٹا کر لو. تم خوشی بهی پا جاءو گے اور سکون بهی. اور جب خوشی اور سکون پا جاءو گے تو انسان سے بندے بن جاءو گے. مجهے بابے کی بات سمجهہ نہ آئی. بابے نے میرا چہرہ پڑه لیا اور بولا اللہ تعالی خواہشوں میں لتهڑے لوگوں کو انسان کہتا ہے اور اپنی محبت میں رنگے خواہشوں سے آزاد لوگوں کو بندہ.
بابے نے کامران کی بارہ دری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا اس کو بنانے والا بهی انسان تها. وہ اپنی عمر سے لمبی عمارت بنانے کے خواب میں مبتلا تها. وہ پوری زندگی دولت ہی جمع کرتا رہا مگر اس دولت اور عمارت نے اسے سکون اور خوشی نہ دی. خوش میں ہوں. اس دولت مند کی بارہ دری میں بے امان بیٹهہ کر. میں نے بے صبری سے کہا اور میں بهی، بابے نے کہا نہیں تم نہیں، تم جب تک سونے بنانے کا نسخہ دل میں پالتے رہو گے تم اس وقت تک خوشی سے دور بٹکهتے رہو گے. بابے نے اس کے بعد زمین سے چهوٹی سی ٹہنی توڑی اور فرش پے رگڑ کے بولا لو میں تجهے انسان سے بندہ بننے کا نسخہ بتاتا ہوں.
اپنی خواہشوں کو کبهی اپنے قدموں سے آگے نہ نکلنے دو.
جو مل گیا اس پر شکر کرو، جو چهن گیا اس پے افسوس نہ کرو.
جو مانگ لے اسے دے دو.
جو بهول جائے اسے بهول جاءو.
دنیا میں بے سامان آئے تهے بے سامان جاءو گے.
ہجوم سے پرہیز کرو اور تنہائی کو ساتهی بناءو.
مفتی ہو تب بهی فتوی جاری نہ کرو.
جسے خدا ڈهیل دے رہا ہو اس کا احتساب کبهی نہ کرو.
بلا ضرورت سچ فساد ہوتا ہے کوئی پوچهے تو سچ بولو ورنہ چپ رہو.
لوگ لزت ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام لزتوں کا انجام برا ہوتا ہے.
زندگی میں جب خوشی اور سکون کم ہو جائے تو سیر کو نکل جاءو. تمہیں راستے میں سکون بهی ملے گا اور خوشی بهی.
دینے میں خوشی ہے وصول کرنے میں غم.
دولت کو روکو گے تو خود بهی رک جاءو گے.
چوروں میں رہو گے تو چور ہو جاءو گے.
سادهوں کی صحبت میں بیٹهو گے تو اندر کا سادهوں جاگ جائے گا.
اللہ راضی رہے گا تو جگ راضی رہے گا، وہ ناراض ہوگا تو نعمتوں سے خوشبو ختم ہو جائے گی.
تم جب عزیزوں، رشتے داروں، اولاد اور دوستوں سے چڑنے لگو تو جان لو اللہ تم سے ناراض ہے.
اور جب تم اپنے دشمنوں کے لیئے دل سے رحم محسوس کرنے لگو تو سمجهہ جانا اللہ تم سے راضی ہے.
اور ہجرت کرنے والا کبهی گهاٹے میں نہیں رہتا.
اسکے بعد بابے نے ایک لمبی سانس لی. اپنی چهتری کهولی اور فرمایا. جاءو تم پر رحمتوں کی یہ چهتری آخری سانس تک رہے گی. بس ایک چیز کا خیال رکهنا،
کسی کو خود نہ چهوڑنا. دوسرے کو فیصلہ کرنے کا موقعہ دینا. یہ اللہ کی سنت ہے. اللہ کبهی اپنی مخلوق کو اکیلا نہیں چهوڑتا، مخلوق اللہ کو چهوڑتی ہے.
جو جا رہا ہو اسے جانے دینا مگر جو واپس آ رہا ہو اس پر کبهی اپنا د روازہ بند نہ کرنا ہی بهی اللہ کی عادت ہے. اللہ واپس آنے والوں کے لئیے ہمیشہ اپنے دروازے کهولے رکهتا ہے.
تم یہ کرتے رہنا تمهارے دروازے پے میلہ لگا رہے گا.