یہی ہے عشق کہ سَر دو ' مگر دُہائی نہ دو
وفُور ِ جَذب سے ٹُوٹو ' مگر سُنائی نہ دویہ دَور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تَلے
سبھی کو بزم میں دیکھو ' مگر دِکھائی نہ دوزمیں سے ایک تعلُّق ہے نا گُزیر مگر
جو ہو سکے تو اِسے رنگ ِ آشنائی نہ دوشہَنشَہی بھی جو دل کے عِوَض مِلے تو نہ لو
فراز ِ کوہ کے بدلے بھی یہ تَرائی نہ دوجواب ِ تُہمت ِ اَہل ِ زمانہ میں ' خُورشید !
یہی بہُت ہے کہ لب سی رکھو ' صفائی نہ دو
Bookmarks