اولاد کی بے راہ روی اور اس کا تدارک
س… ہمارا ایک بیٹا ہے اور چھ بیٹیاں ہیں، یہ ۲۲ سالہ بیٹا ہمارے پڑوسی کے گھر کثرت سے آتا جاتا ہے، ہم نے اس آمد و رفت کو مناسب نہیں سمجھا اور بیٹے کو پابند کرنا چاہا تو بیٹے نے نہ صرف سرکشی اور نافرمانی کی بلکہ ہمارے ساتھ رہنا بھی ترک کردیا، جب ہم اپنے ہمسائے سے ملے اور ان سے درخواست کی کہ آپ ہمارے بیٹے کا اپنے گھر میں آنا جانا اپنے طور پر بند کردیں تو ان کا جواب تھا کہ: “میری بیوی ۴ بچوں کی ماں ہے اور آپ کا لڑکا اس کے سامنے جوان ہوا ہے، کوئی بُرائی کا پہلو سامنے نظر نہیں آتا ہے، میرے خیال میں اس کی آمد نازیبا حرکت نہیں ہے۔” ہم نے ان کی توجہ اس بات پر دِلائی کہ آپ کام پر چلے جاتے ہیں اور وہ کوئی کام نہیں کرتا ہے، اور آپ کی غیرموجودگی میں سارا وقت وہاں گزارتا ہے، اس کے جواب میں فرمایا: “آپ اسے روکیں، آپ کے خیال میں گناہ ہے، میں نہیں روک سکتا۔” آپ سے ہماری درخواست یہ ہے کہ آپ اپنے کالم میں ہمارا سوال اور اپنا جواب شائع کردیں، کیونکہ ہمارے خیال میں یہ ملاپ بیرون ملک کی لعنت ہے جس کا نام “بوائے فرینڈ” یا “گرلز فرینڈ” ہے، یہ وبا پاکستان میں بھی پھیل رہی ہے، آپ کے شرعی جواب سے بہتوں کا بھلا ہوگا، بہت سارے والدین آپ کو ہماری طرح دُعائیں دیں گے۔
ج… آپ نے بہت اچھا کیا کہ صاحبزادے کو ایک غلط بات سے روک دیا اور اپنے ہمسائے کو بھی آگاہ کردیا۔ مغرب کی نقالی نے نئی نسل کو بے راہ روی میں مبتلا کردیا ہے، فلم، ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، مخلوط تعلیمی ماحول اور مرد و زَن کے بے محابا اختلاط نے نوجوان نسل کا حلیہ بگاڑ دیا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق نئی نسل کی اکثریت جنسی امراض، ضعفِ مثانہ، پیشاب کے عوارض میں مبتلا ہے، نئی نسل کا یہ المیہ حکومت، والدین اور اربابِ دانش سبھی کے لئے ایک چیلنج ہے، نئی نسل کو خودکشی سے بچانے کے لئے کوئی تدبیر کرنا ان سب کا فرض ہے۔
والدین کی خوشی پر بیوی کی حق تلفی ناجائز ہے
س… میں آپ سے ایک مسئلہ معلوم کرنا چاہتی ہوں، وہ یہ کہ میں اپنے سسرال والوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، بلکہ علیحدہ گھر چاہتی ہوں، میں اپنے شوہر سے کئی مرتبہ مطالبہ کرچکی ہوں لیکن ان کے نزدیک میری باتوں کی کوئی اہمیت نہیں، بلکہ میری بے بسی کا مذاق اُڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: “تمہارے سوچنے سے اور چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا، وہی ہوگا جو میرے والدین چاہیں گے، تمہیں چھوڑ دُوں گا لیکن اپنے والدین کو نہیں چھوڑوں گا، بچے بھی تم سے لے لوں گا۔” میرے شوہر اور سسرال والے دِین دار، پڑھے لکھے اور باشرع لوگ ہیں، اور اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ علیحدہ گھر عورت کا شرعی حق ہے، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اس کے باوجود مجھے چھوڑ دینے کی دھمکی دیتے ہیں اور میرے ساتھ سخت رویہ رکھتے ہیں، شوہر معمولی باتوں پر میری بے عزّتی کرتے ہیں، چاہتی ہوں کہ میرے شوہر کم از کم میرا کچن ہی علیحدہ کردیں اور رہنے کے لئے اسی گھر میں مناسب جگہ دے دیں تاکہ میں آزادی کے ساتھ اُٹھ بیٹھ سکوں اور مرضی کے مطابق کام انجام دُوں، کیونکہ جوان دیوروں کی موجودگی میں مجھے بعض اوقات بالکل تنہا رہنا پڑتا ہے، بچے بھی اسکول چلے جاتے ہیں، میں خود بھی ابھی بالکل جوان ہوں اور دیوروں کے ساتھ اس طرح بالکل تنہا رہنا مجھے بہت بُرا لگتا ہے، شوہر بھی اس چیز کو بُرا سمجھتے ہیں، لیکن سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش ہیں۔ دِین دار شوہر کا اپنی بیوی کے ساتھ اس طرح کا رویہ شرعاً دُرست ہے؟ کیونکہ میرے شوہر اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں، علیحدہ گھر بیوی کا جائز اور شرعی حق ہے تو جانتے بوجھتے بیوی کو اس کے شرعی حق سے محروم رکھنے والے دِین دار شوہر کے لئے اَحکامات کیا ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ کے یہاں ایسے شوہروں کے لئے کوئی سزا نہیں ہے؟ بیوی کی مرضی کے خلاف زبردستی اسے اپنے والدین کے ساتھ رکھنا کیا شرعاً جائز ہے؟ والدین کی خوشی کی خاطر بیوی کو دُکھ دینا کیا جائز ہے؟
ج… میں اخبار میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ بیوی کو علیحدہ جگہ میں رکھنا (خواہ اسی مکان کا ایک حصہ ہو، جس میں اس کے سوا دوسرے کا عمل دخل نہ ہو) شوہر کے ذمے شرعاً واجب ہے، بیوی اگر اپنی خوشی سے شوہر کے والدین کے ساتھ رہنا چاہے اور ان کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھے تو ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ علیحدہ رہائش کی خواہش مند ہو تو اسے والدین کے ساتھ رہنے پر مجبور نہ کیا جائے، بلکہ اس کی جائز خواہش کا، جو اس کا شرعی حق ہے، احترام کیا جائے۔ خاص طور سے جو صورتِ حال آپ نے لکھی ہے کہ جوان دیوروں کا ساتھ ہے، ان کے ساتھ تنہائی شرعاً و اخلاقاً کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ والدین کی خوشی کے لئے بیوی کی حق تلفی کرنا جائز نہیں۔ قیامت کے دن آدمی سے اس کے ذمے کے حقوق کا مطالبہ ہوگا اور جس نے ذرا بھی کسی پر زیادتی کی ہوگی یا حق تلفی کی ہوگی مظلوم کو اس سے بدلہ دِلایا جائے گا۔ میاں بیوی میں سے جس نے بھی دُوسرے کی حق تلفی کی ہوگی اس کا بدلہ بھی دِلایا جائے گا۔ بہت سے وہ لوگ جو یہاں اپنے کو حق پر سمجھتے ہیں، وہاں جاکر ان پر کھلے گا کہ وہ حق پر نہیں تھے، اپنی خواہش اور چاہت پر چلنا دِین داری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنا دِین داری ہے۔
باوجود صحت و ہمت کے والد اور اللہ کے حقوق ادا نہ کرنا بدبختی کی علامت ہے
س… بے شک افضل وہ ہے جو عبادات باقاعدہ کرے اور نیک عمل کرے، لیکن ایک شخص بوجوہ بیماری خود عبادتوں سے معذور ہے، لیکن دُوسروں کو عبادات کی تلقین کرتا ہے، بلکہ پابند بناتا ہے اور حتی الوسع نیک اعمال کرتا ہے اور اپنے عملوں سے دُوسروں کے لئے اپنی ذات کو مثالی بناکر پیش کرتا ہے جس سے متأثر ہوکر لوگوں نے دِینِ اسلام بھی قبول کیا اور نیک عملوں میں اس کی تقلید بھی کرتے ہیں۔ دُوسرا شخص وہ ہے جو عبادت تو کبھی کبھار کرلیتا ہے، کبھی نماز پڑھ لی، رمضان میں کچھ روزے رکھ لئے، قرآن پڑھ لیا (بغیر سمجھے)، لیکن نیک اعمال نہیں کرتا، دُوسروں کی کمائی سے خود اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے، یہاں تک کہ بہن کی شادی کے لئے پیسے بھی خود خرچ کرلئے اور واپس کرنے کی کوشش نہیں کرتا، اگر اس کو نیک اعمال کے لئے محنت سے اپنی روزی کمانے اور بیوی بچوں کو پالنے کے لئے پہلا شخص کہتا ہے تو وہ یہ کہہ کر انکار کردیتا ہے کہ آپ خود تو نماز روزہ نہیں کرتے، مجھے نیک عملوں کی نصیحت کرتے ہیں، میں کیوں کروں؟ دونوں اَشخاص میں باپ بیٹے کا رشتہ ہے، بچے نہیں کہ مار پیٹ کر سمجھایا جائے، دو بچوں کا باپ ہے بجائے باپ کو کماکر کھلانے کے اُلٹا اپنا رہنا سہنا اور اخراجات اپنے اور اپنی بیوی بچوں کے باپ کی بڑھاپے کی جمع پونجی سے کرتا ہے، آپ کی نظر میں شریعت کیا کہتی ہے کہ کون صحیح ہے؟ باپ یا بیٹا؟
ج… بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے اگر ایک شخص زیادہ عبادت نہیں کرسکتا، لیکن فرض نماز ادا کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ نے جو حق حقوق رکھے ہیں، ان کو ادا کرتا ہو تو یہ شخص صحیح راستے پر ہے، مگر بڑھاپے اور معذوری کی وجہ سے فرائض کا ترک اس کے لئے بھی جائز نہیں، روزہ رکھنے کی اگر طاقت نہیں تو فدیہ ادا کردیا کرے، اور صاحبزادے کا باوجود صحت اور ہمت کے اللہ تعالیٰ کے اور بندوں کے حقوق ادا نہ کرنا اور باپ کی نصیحت پر عمل نہ کرنا اس کی سعادت مندی کی دلیل نہیں بلکہ اس کی بدبختی کی علامت ہے، اس کو چاہئے کہ نیکی اور بھلائی کا راستہ اپنائے، اپنے والد کی نصیحت پر کان دھرے اور بڑھاپے میں والدین کی خدمت کرکے جنت کمائے۔
منافق والدین سے قطع تعلق کرنا
س… کیا منافق والدین سے تغافل اور قطع تعلق جائز ہے؟ جبکہ وہ خود تعلق نہ رکھنا چاہتے ہوں؟
ج… قطع تعلق نہ کیا جائے، ان کی خدمت کی جائے اور ان کی خدمت کو اپنی دُنیا و آخرت کی سعادت سمجھنا چاہئے۔



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks