والدین کی خدمت اور سفر
س… سننِ بیہقی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو فرمانبردار بیٹا اپنے ماں باپ پر شفقت و رحمت سے نظر ڈالتا ہے تو ہر نظر کے بدلے ایک حجِ مقبول کا ثواب پاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول! اگرچہ دن میں سو مرتبہ اس طرح نظر کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہاں! اگرچہ سو مرتبہ، یعنی ہر نظرِ رحمت پر حجِ مقبول کا ثواب ملے گا۔ مسندِ احمد میں ہے کہ جس کو اچھا لگے کہ اس کی لمبی عمر ہو اور اس کی روزی میں فراخی ہو، وہ ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور صلہ رحمی کرے۔ ان احادیث کی روشنی میں اولاد کا کیا حشر ہوگا جو اکثر مسافر رہتے ہیں؟ جیسے کہ آج کل لوگ روزی کمانے کے لئے بیرونی ممالک میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور لمبے عرصے تک اپنے والدین سے بوجہ مجبوری نہیں مل سکتے، تو کیا یہ اولاد اس نعمت سے محروم رہ جائے گی؟ ان کے لئے ثواب حاصل کرنے کا کیا ذریعہ ہوسکتا ہے؟
ج… اگر والدین کی اجازت کے ساتھ سفر پر گیا ہو تو وہ بھی فرمانبرداری شمار ہوگی۔
ماں باپ کی بات کس حد تک ماننا ضروری ہے؟
س… محترم! میں ایک نازک مسئلہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں، اکثر علماء اس بات کا واضح جواب نہیں دیتے، خدا کے لئے مجھے بالکل واضح جواب دے کر اُلجھن سے نجات دِلائیں۔ محترم! اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے حقوق کی ہر جگہ تاکید کی ہے، مذہب اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں انسان کے حقوق و فرائض کو بہت خوبصورت طریقے پر تقسیم کیا گیا ہے، مگر ایک بات جو ہمارے گھر میں بھی زیرِ بحث آئی ہے اور جس کی وجہ سے ہمیں سخت ذہنی اُلجھن ہے وہ یہ کہ میں نے بار بار کتابوں میں بھی پڑھا ہے اور صاحبِ علم لوگوں سے یہ بات سنی ہے کہ خدا کا فرمان ہے: ماں باپ کا اس حد تک حق ہے کہ سوائے اس بات کے کہ وہ اگر خدا کے ساتھ شرک کرنے کو کہیں تو نہ کرو، ورنہ ان کی ہر بات ماننا اولاد کا فرض ہے۔ اور اولاد نے چاہے کتنی نیکیاں کی ہوں گی، ماں باپ اس سے راضی نہیں تو وہ اولاد خدا کی بھی نافرمان ہوگی، اور ہرگز جنت میں نہیں جائے گی۔ میں نے یہ تک پڑھا اور سنا ہے کہ خدا کا حکم ہے اگر تمہارے والدین تمہیں کہیں کہ اپنی بیوی کو چھوڑ دو یا اپنی اولاد کو مار ڈالو تو بھی بغیر پس و پیش کے ایسا کرو۔ اب آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ اس بات کو آپ ضرور جانتے ہیں کہ دُنیا میں بد سے بدکردار لوگ بھی کسی کے ماں باپ بنتے ہیں اور ایسے ماں باپ ہزاروں باتیں غیرشرعی کرتے ہیں، لاتعداد باتیں ان کی ایسی ہوتی ہیں جو اسلام کے دائرے سے خارج ہوتی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اولاد اس پر عمل کرے۔ اب اولاد اگر نیک خصلت ہے اور اسلامی اُصولوں کو عزیز رکھتی ہے تو اس کے لئے یہ کس قدر اذیت ناک مسئلہ ہوگا کہ ایک طرف تو والدین ہیں جو غیرشرعی بات پر مجبور کر رہے ہیں، اگر ان کا کہا نہیں مانتے تو نافرمان ہوتے ہیں، اور خدا نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ والدین کا نافرمان جنت میں داخل نہ ہوگا، خدا اپنی نافرمانی معاف کردے گا، مگر والدین کی نافرمانی معاف نہیں کرے گا، اور پھر دُوسری طرف اولاد کو یہ بھی مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ اگر والدین کا حکم مانتا ہو تو خدا کے اُصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اب اولاد کس قدر مجبور و بے بس ہوتی ہے؟ اس کا اندازہ صرف انہی لوگوں کو ہے جن کے ساتھ ایسے حالات درپیش ہوں۔
ج… والدین کی فرمانبرداری اور ان کی خدمت کے بارے میں واقعی بڑی سخت تاکیدیں آئی ہیں، لیکن یہ بات غلط ہے کہ والدین کی ہر جائز و ناجائز بات ماننے کا حکم ہے، بلکہ والدین کی فرمانبرداری کی بھی حدود ہیں، میں ان کا خلاصہ ذکر کردیتا ہوں۔
اوّل:… والدین خواہ کیسے ہی بُرے ہوں، ان کی بے ادبی و گستاخی نہ کی جائے، تہذیب و متانت کے ساتھ ان کو سمجھا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ سمجھانا ضروری ہے، لیکن لب و لہجہ گستاخانہ نہیں ہونا چاہئے، اور اگر سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
دوم:… اگر وہ کسی جائز بات کا حکم کریں تو اس کی تعمیل ضروری ہے بشرطیکہ آدمی اس کی طاقت بھی رکھتا ہو اور اس سے دُوسروں کے حقوق تلف نہ ہوتے ہوں، اور اگر ان کے حکم کی تعمیل اس کے بس کی بات نہیں یا اس سے دُوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے تو تعمیل ضروری نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جائز نہیں۔
سوم:… اگر والدین کسی ایسی بات کا حکم کریں جو شرعاً ناجائز ہے اور جس سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، تب بھی ان کے حکم کی تعمیل جائز نہیں، ماں باپ تو ایسا حکم دے کر گناہگار ہوں گے، اور اولاد ان کے ناجائز حکم کی تعمیل کرکے گناہگار ہوگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشادِ گرامی ہے: “لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق” یعنی “جس چیز میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو اس میں کسی مخلوق کی فرمانبرداری جائز نہیں۔” مثلاً: اگر والدین کہیں کہ: “نماز مت پڑھو، یا دِین کی باتیں مت سیکھو، یا داڑھی مت رکھو، یا نیک لوگوں کے پاس مت بیٹھو” وغیرہ وغیرہ، تو ان کے ایسے اَحکام کی تعمیل جائز نہیں، ورنہ والدین بھی جہنم میں جائیں گے اور اولاد کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔
اگر والدین یہ کہیں کہ: “بیوی کو طلاق دے دو” تو یہ دیکھنا چاہئے کہ بیوی قصوروار ہے یا نہیں؟ اگر بیوی بے قصور ہو تو محض والدین کے کہنے سے طلاق دینا جائز نہیں۔ اگر والدین کہیں کہ: “بیوی کو تنہا مکان میں مت رکھو” تو اس میں بھی ان کی تعمیل روا نہیں۔ البتہ اگر بیوی اپنی خوشی سے والدین کے ساتھ رہنے پر راضی ہو تو دُوسری بات ہے، ورنہ اپنی حیثیت کے مطابق بیوی کو علیحدہ مکان دینا شریعت کا حکم ہے، اور اس کے خلاف کسی کی بات ماننا جائز نہیں۔
چہارم:… والدین اگر ماریں پیٹیں، گالی گلوچ کریں، بُرا بھلا کہیں یا طعن و تشنیع کرتے رہیں، تو ان کی ایذاوٴں کو برداشت کیا جائے اور ان کو اُلٹ کر جواب نہ دیا جائے۔
پنجم:… آپ نے جو لکھا ہے کہ: “اگر والدین کہیں کہ ․․․․ یا اپنی اولاد کو مار ڈالو تو بھی بغیر پس و پیش کے ایسا کرو” خدا جانے آپ نے یہ کہاں پڑھا ہے؟ اولاد کو مار ڈالنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور میں لکھ چکا ہوں کہ ناجائز کام میں والدین کی اطاعت جائز نہیں، اس لئے آپ نے جو مسئلہ لکھا، قطعاً غلط ہے․․․!
والدین سے احسان و سلوک کس طرح کیا جائے؟
س… آج کا جمعہ ایڈیشن پڑھا، اسلامی صفحے پر جلال الدین احمد نوری صاب نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں والدین کے ساتھ احسان و سلوک کے بارے میں لکھا ہے، اسی سلسلے میں، میں آپ سے کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ دُنیا میں والدین یعنی ماں اور باپ سے زیادہ کوئی پیارا نہیں ہوتا، وہ اولاد کو بڑی تکلیف سے پالتے ہیں اور اولاد کا فرض ہے کہ وہ ان کی عزّت کرے، ماں باپ کو تنگ نہ کرے، ان کا معاشرے میں نام خراب نہ کرے، بُری عادتوں سے دُور رہے تاکہ والدین خوش ہوکر دُعا دیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ سارے ماں باپ ایک جیسے نہیں ہوتے، ہر انسان کی الگ الگ عادت ہوتی ہے، کیا ایسے والد نہیں ہوتے جو اولاد جوان ہوجائے تو بھی عیاشی کرتے ہیں، شراب پیتے ہیں، جوا کھیلتے ہیں، ہر طرح کا عیش کرتے ہیں، ان کی اولاد نیک ہوتی ہے، شریف ہوتی ہے، تو کیا ایسے والد کی بات ماننا ضروری ہے؟ خود عیاش ہو، مگر بیٹے اور بیٹی کو کہے کہ: “تم شادی وہیں کرو جہاں میں چاہتا ہوں۔” دُوسرا سوال یہ ہے کہ میرا ایک دوست ہے، اس کی ماں اس کی شادی کرانا چاہتی ہے، دُرست ہے کہ ماں باپ ہی اولاد کی شادی کرواتے ہیں، مگر میرے دوست کی ماں جب کوئی رشتہ دیکھنے جاتی ہے تو بیٹے سے کوئی مشورہ نہیں کرتی، نہ ہی ضروری سمجھتی ہے، وغیرہ۔ مگر اس کی ماں کا کہنا یہ ہے کہ بس لڑکی صرف اسے پسند آجائے، جب لڑکے کو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس کی ماں فلاں جگہ اس کا رشتہ طے کر رہی ہے، تو بیٹا کہتا ہے کہ: “ماں! یہ لوگ بہت بُرے آدمی ہیں، اور اچھے اور شریف نہیں ہیں۔” تو ماں کہتی ہے کہ: “چل چل! تجھے کیا پتا؟ اس سے اچھا رشتہ اور کہاں ملے گا” یہ پوری کہانی میں نے آپ کو اس لئے سنائی ہے کہ آپ کو تفصیل معلوم ہوجائے۔ اب لڑکا جو میرا دوست ہے، ماں سے انکار کرتا ہے کہ: “ماں! میں اس جگہ شادی نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ لوگ اچھے نہیں ہیں” تو اس کی ماں ناراض ہوجاتی ہے اور اسی بنا پر اب لڑکا بالکل ہی بے بس ہے۔ شادی اس کی ہو رہی ہے مگر اس کی کوئی رائے نہیں، نہ کوئی اہمیت ہے۔ آج جب سے اس نے یہ مضمون اخبار میں پڑھا تو زیادہ پریشان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سارے حق ماں باپ کو دے دئیے ہیں، اگر انکار کرتا ہوں تو اس دُنیا میں اور قیامت کے دن ماں کی ناراضگی کی وجہ سے ذلیل ہوگا، اس لئے یہاں تو جی حضوری ہے، پھر چاہے پسند ہو، نہ ہو۔ اب آپ مجھے اسلام کی رُو سے جواب دیں کہ کیا اسلام نے اولاد کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ کچھ کہہ سکیں؟ مگر آج کا مضمون جو بالکل قرآن پاک اور حدیث سے لیا گیا ہے، کوئی گنجائش نہیں ہے، مضمون پڑھ کر تو میرا دوست بالکل خاموش ہوگیا ہے کہ بھلے جہاں چاہیں شادی کردیں، میں ایک لفظ نہیں کہوں گا، پھر چاہے شادی کامیاب ہو یا ناکام۔ برائے مہربانی اسلام کی رُو سے جواب سے نوازیں۔
ج… دراصل کوتاہی دونوں طرف سے ہے، والدین کو چاہئے کہ اولاد جب جوان ہوجائے تو ان کو مشورے میں شریک کریں، خصوصاً ان کی شادی بیاہ کے معاملے میں ان سے مشورہ لینا تو بہت ضروری ہے، اور اولاد کو چاہئے کہ والدین کی رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دیں، اور اگر ان کی رائے بالکل ہی نادُرست ہو تب بھی ان سے گستاخی بے ادبی سے پیش نہ آئیں، البتہ تہذیب و متانت سے کہہ دیں کہ یہ بات مناسب نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو کام شریعت کے لحاظ سے یا دُنیوی لحاظ سے غلط ہو، اس میں والدین کی فرمانبرداری جائز نہیں، مگر ان کی گستاخی و بے ادبی نہ کی جائے۔
والدین اگر گالیاں دیں تو اولاد کیا سلوک کرے؟
س… اسلام نے گالیاں دینے والے کے لئے کیا فرمایا ہے، چاہے وہ کوئی بھی دے؟ ہمارے پڑوس میں ایک صاحب اتنی گالیاں دیتے ہیں کہ ایک جملے میں دس گالیاں ہوتی ہیں۔ ذرا سی مرضی کے خلاف بات ہوجائے تو وہ اپنی بیوی کے خاندان والوں کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ غرض کہ وہ اُٹھتے بیٹھتے گالیاں دیتے ہیں، ان کی اولاد اب جوان ہوگئی ہے اور وہ اب دِل برداشتہ ہوکر کبھی کبھی اپنے باپ کو کچھ بول دیتے ہیں، مگر بعد میں ان کو بہت افسوس ہوتا ہے۔
ج… اس شخص کی یہ گندی عادت اس کی ذِلت کے لئے کافی ہے، وہ جو گالیاں بکتا ہے وہ کسی کو نہیں لگتیں، بلکہ اپنی زبان گندی کرتا ہے، اس لئے اس کی گالیوں کی طرف توجہ نہ دی جائے، اور اس کے لڑکوں کو چاہئے کہ اس وقت اس کے پاس سے اُٹھ جایا کریں، بعد میں متانت اور تہذیب سے اس کو سمجھادیا کریں۔ اولاد کے لئے والدین کی گستاخی و بے ادبی جائز نہیں، اس سے پرہیز کریں۔
شوہر یا والدین کی خدمت
س… میرے اور میرے شوہر کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، جبکہ میرے شوہر کو میرے والدین سے بہت شکایات ہیں، میں خود سمجھتی ہوں کہ میرے والدین نے خاص طور پر والد صاحب نے میرے اور میرے شوہر کے ساتھ کئی ناانصافیاں کی ہیں، میرے لئے دونوں قابلِ احترام ہیں، لیکن میرا ایمان ہے کہ اولاد پر والدین کے بہت زیادہ حقوق ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اولاد کو پیدا کرتے ہیں اور پالتے پوستے ہیں، اولاد ان کا یہ احسان کبھی نہیں چکاسکتی، والدین کی نافرمانی اولاد کو جہنم میں لے جاتی ہے۔ برائے مہربانی قرآن اور سنت کی روشنی میں مجھے مشورہ دیں کہ ان حالات میں مجھ پر کس کی فرمانبرداری لازم ہے، والدین کی یا شوہر کی؟
ج… آپ کو حتی الوسع ان دونوں فریقوں میں سے کسی کی بھی نافرمانی نہیں کرنی چاہئے، لیکن اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ ان میں سے کسی ایک کی تعمیل ہی کی جاسکتی ہے، تو آپ کے لئے شوہر کا حق مقدّم ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ آپ شوہر کو سمجھا بجھاکر جو صورت زیادہ بہتر ہو اس کے لئے راضی کرلیا کریں، لیکن اگر وہ اپنی بات منوانے پر بضد ہوں تو آپ ان کی بات کو ترجیح دیں اور والدین سے بصد ادب معذرت کرلیا کریں۔ جو لڑکیاں شوہر کے مقابلے میں والدین کے حکم کو فوقیت دیتی ہیں، وہ اپنے گھر کبھی سکون سے آباد نہیں ہوسکتیں۔



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks