معمر ترین جانور
دودھ پلانے والے یا ممالیہ جانداروں میں سب سے طویل عمر تو حضرت انسان ہی کی مصدقہ سمجھی جاتی ہے، جو 120 سال کی ریکارڈ عمر تک زندہ تھے اور اتنی طویل زندگی جاپان کے شیگے چیوایزدی نے پائی تھی، جو 29 جون1865ء کو پیدا ہوئے تھے اور 21فروری1986ء کو ان کا انتقال ہوا تھا، تا ہم جانوروں میں ایشیائی ہاتھی سب سے طویل العمر مانا جاتا ہے۔ اس نسل کے ہاتھیوں میں ایک مادہ ہتھنی جس کا نام ’’مودوک‘‘ تھا وہ انتہائی باوثوق حوالوں کی روشنی میں 78 سال تک زندہ رہنے کے بعد 17جولائی1975ء کو سانتا کلارا کیلی فورنیا میں راہی ملک عدم ہو گئی۔ اس ہتھنی کو دو سال کی عمر میں 1898ء میں جرمنی سے امریکا لایا گیا تھا ۔ نیپال کے شاہی ہاتھی ’’پریم پرشاد‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 27فروری1985ء کو کسر اچتون میں جب آخری سانسیں لے رہا تھا تو اس وقت اس کی عمر 81 سال ہو چکی تھی، تا ہم باور کیا جاتا ہے کہ اس کی اصل عمر65 سے 70 سال کے درمیان تھی۔ سری لنکا کا عالمی شہرت یافتہ ہاتھی ’’ راجہ‘‘ 1931ء سے پارا ہیرا کے مذہبی جلوس کی قیادت کرتا آرہا تھا۔ اس جلوس کی خاص بات یہ تھی کہ ہاتھی پیٹھ پر گوتم بدھ کا مقدس دانت رکھا ہوتا تھا۔ 16جولائی1988ء کو جب راجہ سور گباش ہوا تو اس کی عمر مبینہ طور پر 81 سال تھی۔ایشیائی ہاتھیوں کی ایک اور ریکارڈ خوبی یہ ہے کہ ان کے حمل کی مدت تمام ممالیہ جانوروں میں سب سے طویل ہوتی ہے۔ اسقراط حمل سے وضع حمل تک اوسطاً 609 دن یا 20 ماہ سے زائد عرصہ درکار ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ 760 دن بھی لگ سکتے ہیں۔ اس طرح یہ ہاتھی بچے کو جنم دینے میں انسانوں کے مقابلے میں ڈھائی گنا زیادہ وقت لیتے ہیں۔ 1981ء تک شکاریوں کی دست برد سے بچ جانے والے ایشیائی ہاتھیوں کی تعداد 35 ہزار رہ گئی تھی۔ سب سے تیز رفتار وہیل وہیل کی ایک قسم کلر یا قاتل وہیل کہی جاتی ہے۔ ممکن ہے اس وہیل کے ہاتھوں انسانی جانیں بھی ضائع ہوئی ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے نام کے برعکس یہ ایک شریف النفس مخلوق ہے۔ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے یہ انسانوں کی بجائے دوسری مچھلیوں اور دیگر آبی مخلوقات کا شکار کرتی ہے۔ وہیل کی اس قسم کو ’’جے اور کا‘‘ بھی کہتے ہیں اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ تمام بحری ممالیہ جانداروں میں یہ سب سے تیز رفتار تصور کی جاتی ہے۔ 12 اکتوبر1988ء کو ایک نرکلر وہیل نے جو اندازاً 25-30 فٹ لمبی تھی۔ شرفی بحرالکاہل میں 30 ناٹ یا 55.45 کلومیٹر کی رفتار سے فاصلہ طے کرنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ کلر وہیل کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ دنیا کے قریباً تمام سمندروں میں یہ پائی جاتی ہے، اسے ڈولفن کی نسل کا بحری جانور قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا کی سب سے پہلی ہائی ڈیفینیشن دنیا کی سب سے پہلی ہائی ڈیفینیشن High defination ٹیلیویژن نشریات کا آغاز الیگزنڈر اپیلن لندن سے 2نومبر1936ء کو ہوا تھا۔ اس وقت ٹیلیویژن سیٹس دستیاب تھے۔ ٹی وی نشریات کو عملی شکل دینے والے انجینئر کا نام ڈگلس بریکن شا تھا۔ جرمنی کے شہر برلن میں اس سے پہلے مارچ 1935ء میں لوڈیفینیشن نشریات کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں لائنوں کی تعداد 180 تھی جس کی وجہ سے تصویریں نسبتاً کم واضح تھیں۔ بد قسمتی سے اس سال اگست میں اس ٹیلیویژن اسٹیشن کا ٹرانسمیٹر جل گیا۔ اس وقت جو جدید ترین ہائی ڈیفینیشن ٹیلیویژن اسکرینوں پر نظر آنے والی تصویریں بالکل حقیقی جیتی جاگتی معلوم ہوتی ہیں۔ مواصلاتی سیارے کے ذریعہ پہلی بار بحراوقیانوس کے پارٹیلیویژن نشریات کا آغاز 11 جولائی1963ء کو کیا گیا تھا۔ مدار میں موجود اس سٹیلائٹ کا نام ’’ٹیل اسٹار‘‘ تھا جس سے مدد حاصل کی گئی تھی اور اس مواصلاتی سیارے کی وساطت سے امریکی ریاست مین کے شہر آندوور سے ٹیلیویژن پر پہلی تصویر فرانس کے شہر بودو منتقل کی گئی تھی اور یہ تصویر فریڈرک آرکیپل کی تھی ،جو امریکی ٹیلیویژن اینڈ ٹیلیگراف کمپنی کے چیئرمین تھے اور جو اس مواصلاتی سیارے کے مالک تھے۔ مواصلاتی سیارے کے ذریعے پہلی بار براہ راست نشریات کا آغاز 23 جولائی1962ء کو ہوا تھا۔ (دنیا کے ناقابل فراموش حیرت انگیز واقعات،مرتب: عثمان بلوچ) ٭…٭…٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks