SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: مستقبل خطرے میں

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      مستقبل خطرے میں



      عبدالستار ہاشمی
      مستقبل کو دو حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اوّل یہ کہ آنے والے وقت میں سب لوگ بہت خوش ہوں گے، کوئی مسئلہ نہیں ہو گا اور ہر طرف امن شانتی اور سکون ہو گا۔ ٹیکنالوجی کا انقلاب دنیا کو جنت کا گہوارہ بنا دے گا اور دوئم یہ کہ یہی ٹیکنالوجی دنیا کی تباہی کی وجہ بن جائے گی۔ ایک ایسی مشینی زندگی ہو گی جس میں انسانوں کے کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہو گا ،ہر طرف روبوٹ ہی روبوٹ ہونگے۔ دنیا ایک بھیانک خواب کی طرح ہو گی۔ اس موضوع پر دونوں حوالوں پر بات کی جا سکتی ہے لیکن آج ہم یہ دیکھیں گے کہ آنے والے وقتوں میں زندگی کس قدر ڈرا دینے والی ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل چیدہ چیدہ حقائق پر نظر دوڑائیں۔ 1۔ عالمی قحط غیر معمولی اور تفیر پذیر موسم، معاشی ابتری اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی وہ عوامل ہیں جو آخر کار ایک عالمی قحط کا باعث بنیں گے۔ روزنامہ گارڈین کے ایک مضمون کے مطابق تو دنیا کچھ عرصہ کی مہمان ہے اور ہم سب عالمی آفتوں کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ خوراک اور فصلیں کم پڑ جائیں گی اور کھانے والوں کی تعداد اس قدر بڑھ جائے گی کہ ا ن کی خوراک کی طلب پوری کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہو گا۔ اس عالمی قحط کا آغاز تو ایتھوپیا اور افریقی ممالک میں ہو بھیچکا ہے جہاں بھوک سے لوگ مر رہے ہیں اور کوئی ان کو خوراک دینے والا نہیں ہے۔ اس لیے کہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی اپنے شہریوں کی بھوک مٹانے کی پڑ چکی ہے۔ اس بھوک کا نتیجہ کیا ہو گا؟ کیا لوگ بھوکے مر جائیں گے۔ نہیں وہ اور بھوکے ہو ں گے اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دہشت گردی کا راستہ اپنائیں گے اور اس مشق کا آغاز ہو چکا ہے۔ صرف ایک مثال پر غور کریں کہ دنیا کہاں کھڑی ہے اور آنے والے وقتوں میں عالمی قحط کہاں کہاں کیا قیامت ڈھائے گا۔صومالیہ میں بھوک اور قحط کا مسئلہ ملک کے دو متاثرہ علاقوں کے بعد اب جنوبی صومالیہ کے دیگر حصوں میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے بلاتاخیر اور بھرپور امداد کی اپیل کی گئی ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق قرن افریقہ کے خطے میں شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ قحط کے سلسلے میں فوری اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ اگر اس بحران کو پھیلنے سے روکا نہ گیا تو اس کا دائرہ پہلے بدامنی اور پھرخانہ جنگی کے شکار ملک صومالیہ کے دیگرعلاقوں تک بھی پھیل جائے گا اور تب اس پر قابو پانا اور بھی مشکل ہو گا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ صومالیہ، ایتھوپیا، کینیا اور اریٹیریا میں صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس خطے میں قحط سے متاثرہ انسانوں کی تعداد 12 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ خشک سالی اور قحط کے باعث اب تک ہزاروں صومالی باشندے ہلاک ہو چکے ہیں اور بھوک کی وجہ سے لاکھوں پریشانی کا شکار ہیں۔ 2۔ مشینی عمل آئندہ زندگی جامد ہو کر رہ جائے گی اور ایک ایسا مشینی عمل اس دنیا کو تباہ کر دے گا جسے ہم نے ترقی کا نام دے رکھا ہے۔ جب ایک ہزار بندے کی جگہ ایک مشین کام کرئے گی اور اس ایک مشین کو آپریٹ کر نے والا بھی ایک ہی آدمی ہو گا بلکہ اگر اس آپریٹر کی جگہ روبوٹ ہواتو سادہ سی بات ہے کہ یہ ہزار لوگ کہاں سے کمائیں اور کھائیں گے۔ اسی نکتہ کی وجہ سے مستقبل بہت ہی بھیانک نظر آرہا ہے۔ اور پھر اگر لوگ مشینوں کی طرح سوچنے لگ گئے تو اخلاقیات اور بھائی چارے کا ایسا جنازہ اٹھے گا کہ احساس نام کی کوئی شے باقی ہی نہیں بچے گی۔ 3۔ نیو سوشل کنٹریکٹ کا نہ ہونا یونان کی کی ہزاروں سال کی تاریخ میں ایک ‘‘ننگا بادشاہ’’ تھا لیکن آج بد قسمتی سے دنیا میں ‘‘ننگے باد شاہوں’’ کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے۔جمہوریت کے نام پر’’ننگے بادشاہوں’’ کے پورے پورے خاندان نسل در نسل غریب عوام پر مسلط ہیں۔ اقتدار مافیا اپنی بزنس ایمپائر کھڑی کرنے کے لیے ہر کسی کو معاشی طور پر تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا۔ سامراجی فارمولا ’’لڑائواور حکومت کرو’’ کے تحت اس اقتدار مافیانے قوم کو نسلی ،لسانی ،علاقائی اور مذہبی فرقہ و ارانہ بنیادیوں پر تقسیم کیا ہوا ہے اور مستقبل میں یہ سلسلے اور بھیانک ہوں گے۔ان سے نجات کے لیے ایک نیو سوشل کنٹریکٹ کا ہونا ضروری ہے۔ یہی صورت حال باقی دنیا کی ہے اور اقتدار کی بھوک آخر ایک دن سب کو لے ڈوبے گی۔ 4۔ دہشت گردی آج دنیا بھر میں ہنگامہ خیز تسلسل کے ساتھ ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کی وحشت عوام کے بدن پر ایک رستا ہوا گھاؤ بن گئی ہے۔ ہر سو مایوسی اور نا امیدی طاری ہے۔ دانشوروں کی جانب سے اس موضوع پر لا حاصل بحث ان سوالات کی وضاحت کی بجائے ان کو مزید الجھانے کا باعث ہے۔ تشدد آمیز لڑائیاں حیران کن حد تک متضاد مقاصد کے حصول پر مبنی ہیں۔ دنیامیں خون ریزی کے موجودہ ریلے کی وجوہات بہت پیچیدہ ہیں اور اس میں ملوث افراد اس بھی زیادہ مشتبہ۔خون کی اس ہولی اور وحشت کے پیچھے سرکردہ افراد اور ذمہ داران صرف انہی لوگوں تک محدود نہیں ہیں جن کے بارے میں ہمیں یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس دہشت گردی کی مضبوط معاشی بنیاد ہے اور یہ انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔خود کش بم دھماکے اور دہشت گرد حملے کرنا انتہائی مہنگا کام ہے۔ ان میں سرمایہ کاری کرنے والے لازمی طور پر بہت بڑے منافع کماتے ہوں گے۔ کوئی بھی سرمایہ دار محض نیکی کمانے کی غرض سے اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کرتا۔سامراجیوں نے جہاں بھی مداخلت کی وہاں ایسے ہی مالیاتی نیٹ ورک کھڑے کیے ہیں۔ہنڈارس، ویتنام، نکارا گوا وغیرہ محض اس کی چند مثالیں ہیں۔مستقبل میںیہ لہر ایک عفریت کی شکل اختیار کرئے گی جس کے منہ سے نکلنے والی آگ سب کو بھسم کر دے گی۔یہ مستقبل کی ایک خوفناک تصویر ہے۔ 5۔ تیل کا مسئلہ اگر ہم دنیا کے مستقبل کو تیل کی کمی کے حوالے سے دیکھیں تو بہت گھمبیر صورت حال نظر آتی ہے آج دنیا مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اس کی بنیادی وجہ تیل ہی ہے۔ سامراجوں نے تیل کے حصول کے لیے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں اپنے پنجے گاڑھے ہوئے تھے اور وہ عالمی امن کو تبا ہ کرنے سے بھی گریزاںنہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل میں اسی تیل کی وجہ سے دنیا کی تباہی ہوتی نظر آرہی ہے۔ آج امریکہ میں شیل گیس اور پیٹرولیم کی دریافت سے تیل کی عالمی قیمتوں میں جو کمی آئی ہے اس کے اثرات غریب عوام تک نہیں گئے اور تیل پیدا کرنے والے ممالک اچانک ان قیمتوں کو بڑھا کر غریبوں کا جینا دوبھر کر دینگے۔ اس معاشی جنگ میں صرف غریب کی ہلاکت ہو گی۔ 6۔ مہلک بیماریاں آپ ابھی صرف ایک بیماری کے حوالے جانیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ خون میں پائے جانے والے سفید ذرّات کی کمی لیکوپینیاکی بیماری کہلاتی ہے۔ ان کا کام انسانی جسم کو قوت مدافعت مہیا کرنا ہے۔ مختلف اقسام کے انفیکشن یا عفونت کے حملے سے بچانے میں خون کے اندر موجود سفید ذرات ہی کام آتے ہیں۔ ان کی کمی جسم کی قوت مزاحمت کو بہت کمزور کر دیتی ہے اور انسان آئے دن کسی نہ کسی بیماری یا تکلیف میں مبتلا رہتا ہے۔اس موذی مرض کا دوسرا نام ہے بلڈ کینسر یا سرطان خون۔ اس بیماری میں خون کے اندر خلیات ابیض بہت زیادہ کثرت سے بننا شروع ہوجاتے ہیں اور ریڈ بلڈ سیلز یا خون کے سرخ خلیوں کی تعداد بہت کم، کئی کیسز میں صفر کے برابر رہ جاتی ہے۔ سرطان کی یہ قسم سب سے زیادہ خطرناک مانی جاتی ہے۔ بد قسمتی سے یہ عارضہ کم عمر بچوں اور نوجوانوں کے اندر زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے اور اس کے شکار بچے اور جوان مریض زیر علاج رہنے کے باوجود زیادہ عرصے زندہ نہیں رہ پاتے۔ عالمی ادارہ ِ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 76 لاکھ افراد کینسر کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ یہ تعدادہر سال ایڈز، ملیریا اور تب ِ دق جیسی بیماریوں سے ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ترقی پذیر ممالک میں چھوت کی بیماریوں کو عموما زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ مگر عالمی ادارہ ِ صحت کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق وہ بیماریاں جو ایک انسان سے دوسرے انسان کو نہیں لگ سکتیں عالمی سطح پر زیادہ اموات کا سبب بن رہی ہیں۔یہ سلسلے اور تیز ہوں گے۔ 7۔گلوبل وارمنگ سائنسدانوں کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث قطب شمالی پر درجہ حرارت عالمی اوسط کی نسبت دوگنی رفتار سے بڑھ رہا ہے، جس سے سال 2100ء تک سمندروں کی سطح 5.3 فٹ تک بلند ہوسکتی ہے۔سمندروں کی سطح میں اضافے کا یہ اندازہ اب سے چند برس قبل لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اوسلو میں قائم ’آرکٹک مانیٹرنگ اینڈ ایسیسمنٹ پراجیکٹ‘ (AMAP) کا کہنا ہے کہ سمندروں کی سطح میں حالیہ اضافے کا 40 فیصد حصہ برف پگھلنے کا نتیجہ ہے، جبکہ مستقبل میں یہ اور زیادہ اثرانداز ہوگا۔اے ایم اے پی کی طرف سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق ’’سال 2100ء تک سمندروں کی سطح میں اضافے کا اندازہ تین سے 5.3 فٹ تک لگایا گیا ہے۔ قطب شمالی پر موجود برفانی گلیشیئرز اور گرین لینڈ کے علاقے میں موجود برف کی دبیز تہہ کا پگھلنا پانی کی سطح میں اضافے میں اہم کردار ادا کریں گے۔‘‘ سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ اضافہ کم ترین اندازے کے مطابق بھی ہوتا ہے، تو بھی بنگلہ دیش، ویتنام اور چین میں ساحلی آبادیوں اور سمندر کی سطح سے نیچے علاقوں میں اس کے تباہ کن اثرات ظاہر ہوں گے۔ سمندروں کی سطح میں زیادہ اضافے سے جزیروں پر آباد کئی آبادیوں کا نہ صرف نشان تک مٹ جائے گا، بلکہ اس کا نتیجہ سمندری طوفانوں کی تعداد میں اضافے اور قابل کاشت زمین میں کمی کی صورت میں بھی نکلے گا۔ ٭…٭…٭







      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. #2
      Moderator www.urdutehzeb.com/public_htmlClick image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      BDunc's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      8,431
      Threads
      678
      Thanks
      300
      Thanked 249 Times in 213 Posts
      Mentioned
      694 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      119

      Re: مستقبل خطرے میں

      Umda


    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: مستقبل خطرے میں

      شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •