ہمایوں اس باپ کا بیٹا تھا جو نہ صرف ایک عظیم فاتح تھا بلکہ کتابوں کا بھی شوقین تھا۔ اس کے باپ بابر نے اس کے ذوق کی حوصلہ افزائی غازی خان کے ذخیرہ کتب سے اسے منتخب کتابیں تحفہ میں دے کر کی تھی۔ چنانچہ بابر کے انتقال کے بعد اس ذخیرہ میں گراں قدر اضافہ کرتے ہوئے اس کی علمی حیثیت کو چار چاند لگائے۔ ہمایوں کا ذوق مطالعہ اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ وہ میدان جنگ میں بھی محدود منتخب کتابوں کا ذخیرہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ بنگال اور گجرات کی مہمات کے دوران وہ اپنا ذخیرہ کتب اپنے ساتھ لیے ہوئے تھا۔ جہانگیر تزک جہانگیری میں اپنے دادا ہمایوں کے ذوق مطالعہ و کتب متعلق لکھتا ہے کہ ’’ہمایوں اہل علم سے مل کر بہت خوش ہوتا اور انھیں انعام و اکرام سے مالا مال کر دیتا تھا۔ کتابوں کا عاشق تھا۔ یہاں تک کہ جب اس نے شیر شاہ سے شکست کھائی اور وہ کھنبایت میں خیمہ زن ہوا تب بھی کچھ کتابیں اور ایک محافظ کتب لال بیگ کا باپ نظام جسے باز بہادر کا لقب حاصل تھا، اس کے ساتھ تھا۔ ایک رات ایک جنگلی قبیلہ ’’کولی‘‘ نے اس کے خیمہ پر حملہ کیا اور سب مال و اسباب لوٹ کر لے گئے۔ اس میں ’تاریخ تیمور لنگ‘ کا نادر نسخہ بھی تھا مگر بعد میں کسی طرح واپس مل گیا‘‘۔کتب خانے قائم کرنے میں شہنشاہ کی دلچسپی کا ثبوت اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی موت سے کچھ پہلے پرانے قلعہ دہلی کی ایک تفریح گاہ کو کتب خانہ میں تبدیل کر دیا تھا۔ پرانے قلعہ میں یہ عمارت شیر شاہ سوری نے 1541ء میں بطور تفریح گاہ بنوائی تھی اور اس کا نام شیرمنڈل رکھا تھا۔ ہمایوں نے آگرہ میں ایک عالی شان عمارت بنوائی اس کا نام طلسم تھا۔ اس کا خاص حصہ تین عمارتوں پر مشتمل تھا۔ ان میں ایک خانہ سعادت درمیان میں ہے اور وہ ہشت پہلو ہے۔ اس کے بالائی کمرہ میں کتب خانہ تھا۔ جہاں جائے نماز قلم دان، جز دان، خوبصورت کتابیں اور خطاطی نمونے رکھے ہوئے تھے۔ ہمایوں کو علم ہیئت اور جغرافیہ کے مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ اس نے عناصر کی نوعیت پر مقالے لکھے تھے اور اپنے استعمال کے لیے زمینی اور آسمانی کرے (گلوب) بھی تیار کیے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمایوں کتابوں کا سچا پرستار تھا اور اس مشق میں اس نے پرانے دہلی میں واقع کتب خانہ کی سیڑھیوں سے نیچے گر کر 25 جنوری1556ء کو غروب آفتاب کے وقت وفات پائی۔ گو ہمایوں کا ز مانہ اقتدار بہت کم رہا مگر اس کا کردار کتب خانوں کے قیام میں اور کتابوں کے شوق کو عام کرنے میں مثالی کہا جا سکتا ہے۔ (کُتب اور کُتب خانوں کی تاریخ از اشرف علی