Thanks for great sharing
مشتاق احمد یوسفی
زینت مینشن میں ایک تنگ و تاریک سی کیبن تھی جس میں ڈھنگ کی ایک میز بھی اس صورت میں سما سکتی تھی کہ کرسی کا کھٹراگ نہ ہو۔ اس میں چار آدمیوں کی شانہ بشانہ نشست کا اس طرح اہتمام کیا گیا تھا کہ دیوار میں چیڑ کا ایک آٹھ فٹ لمبا، ڈیڑھ فٹ چوڑا تختہ کیلوں سے جڑدیا گیا تھا، جسے کاؤنٹر کہتے تھے اس لیے کہ ڈکشنری میں اس شے کے لیے کوئی علیحدہ لفظ نہیں تھا۔ بیٹھیں تو کھوے سے کھوا، زآنو سے زآنو بلکہ قلم سے قلم چھلتا تھا جب تک دونوں سروں کے آدمی زور لگا کر خود کو اپنے جڑواں پڑوسی سے علیحدہ نہ کر لیں، بیچ والے اٹھ بھی نہیں سکتے تھے سب با جماعت اُٹھتے بیٹھتے تھے۔ بغیر نوٹس دائیں بائیں سرہلا کر لطیفے کی داد دینے کی اجازت نہ تھی ۔سو سال پرانی چھت پر چھپکلی بھی ذرابے احتیاطی سے چلتی تو ہمارے سر پرپلستر کے ٹکڑے گرتے۔ دیوار بوسیدہ اور سیلی سیلی۔ کیلیں بار بار اُکھڑ جاتی تھیں۔ بیشتر وقت ہم تختہ کو گود ہی میں لیے بیٹھے رہتے۔ اس ’بلیک ہول‘ میں کسی طرف سے روشنی کا گزر نہ تھا۔ ہوا کے جھونکے البتہ باتھ روم سے گزر کر برابر آتے اور ہر دفعہ تازہ بدبو لاتے۔ مکھی مچھر یہاں زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ کھٹملوں کا ذکر ہم نے عمداً نہیں کیا، اس لیے کہ ان کے چندہراوّل دستے کالروں پر رینگتے ہوئے پکڑے گئے، وہ مقامی نہ تھے، ان کے خون کے معائنے سے پتہ چلتا تھا کہ ان کا تعلق اہالیان پیر آلہی بخش کالونی، لالو کھیت اور آرٹیلری میدان کے ’’بلڈ گروپ سے ہے ۔دور ترین کونے میں 15 واٹ کا ایک ننگا بلب لٹکا ہوا تھا۔ (15 واٹ سے کم کے بلب اس زمانے دستیاب نہ تھے۔) اسے ستلی سے کھینچ کر ایسے غیر جانبدارانہ نقطے پر لے آئے تھے کہ سب کو یکساں طور پر دھندلا نظر آئے۔ یہ بینک کا رجسٹرڈ آفس اور چیف اکاؤنٹنٹ کا دفتر تھا۔ کلرک تو خیر اپنا علیحدہ علیحدہ وجود رکھتے تھے، لیکن تینوں افسر ایک ہی قمیض پتلون کے کوزے میں بند تھے۔ بینک میں ملازم ہوئے ہمیں مشکل سے تین سال ہوئے ہوں گے کہ اینڈرسن نے ازراہ مرحمت ہمیں چیف اکاؤنٹنٹ بنا دیا۔ سیکرٹری اور انسپکٹر آف برانچز کے عہدوں پر ہم پہلے سے ہی فائز تھے۔ ہماری دن دوگنی رات تگنی ترقی سے بینک کو کل 15 آنے کا نقصان ہوا، اس لیے کہ تین ربڑ اسٹامپ بنوانے پر اس زمانے میں یہی لاگت آتی تھی۔ جیسا کہ ہم تفصیل سے کہیں اور بیان کر چکے ہیں، اس ترقی سے ہر چیز میں ایک خوشگوار تبدیلی آ گئی سوائے تنخواہ کے۔ وہ بدستور وہی رہی۔ اینڈرسن ڈسپلن، دفتری آداب اور ضابطہ کا اس قدر پابند تھا کہ کبھی ہمیں نام لے کر نہیں بلاتا تھا۔ بلکہ کاغذات کی نوعیت دیکھ کر چپراسی کو حکم دیتا کہ ’’انسپکٹر آف برانچز کو بلاؤ‘‘ ’’کمپنی سیکریٹری کو سلام دو‘‘ ’’ایکڈم چیف اکاؤنٹنٹ کو حاضر کرنا مانگٹا‘‘۔ اور جس حیثیت سے طلب کرتا صرف اسی کے متعلق سوال کرتا۔ دوسرے عہدے سے متعلق کچھ پوچھنا ہو تو دو تین منٹ کا وقفہ دے کر دوبارہ طلب کرتا۔ ایک دفعہ اس نے ایک گوشوارے میں، جسے ہم نے خود بنا کر خود ہی، بحیثیت چیف اکاؤنٹنٹ، چیکنگ کے دستخط کیے تھے، ایک موٹی سے غلطی پکڑی اور ہمیں دھمکی دی کہ میں چیف اکاؤنٹنٹ کے کام کے ابھی انسپکٹر آف برانچز سے سرپرائز چیکنگ کروا کے پرخچے اُڑوا دوں گا! ہم خود کوزہ و کوزہ گرد گل کوزہ ہی نہیں، کوزہ شکن بھی تھے۔ کبھی اظہار خوشنودی کرنا ہو تو یہ نہیں کہتا تھا کہ میں تمہارے کام سے خوش ہوں، بلکہ فقط اتنا اعتراف کرتا کہ جنرل مینجر سردست انسپکشن ڈپارٹمنٹ سے غیر مطمئن نہیں ہے۔ گفتگو صیغۂ جمع غائب ہی میں ہوتی تھی، حالانکہ ڈپارٹمنٹ مذکور ہماری ذات واحد پر مشتمل تھا۔ اور اس کی علیحدہ دوات تک نہ تھی۔ ویسے تو گھنٹی بھی نہ تھی، لیکن اس کی کمی ہم نے کبھی محسوس نہ کی۔ اس لیے کہ اسے بجا کر لانے کے لیے کوئی علیحدہ چپراسی نہ تھا۔ ایک مشترکہ چپراسی کو اپنی جیب خاص سے چار روپے ماہوار دیتے تھے۔ وہ ہمیں صبح و شام سلام کرنے کے علاوہ کبھی کبھی دفتری کام بھی کر دیتا تھا۔ (لیل و نہار، طنز و مزاح نمبر
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Thanks for great sharing
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks