گوئٹے کا شہرہ آفاق منظوم ڈراما فاؤسٹ (حصہ اوّل) ہے، جو اسکی زندگی ہی میں چھپا، دوسرا حصہ اس کی وفات کے ایک سال بعد چھپا۔ شیطان جو ہر مذہب میں انسان کا دشمن۔ خیر کی طاقت کے سامنے ایک رکاوٹ اور راندہ درگاہ ہے جس کا کام ہی انسان کو الجھنوں میں قید کرنا ہے۔ جسے یہ بات پسند نہیں کہ انسان سیدھے راستے پر چلے اور خیر کا استعارہ بنے، ڈراما ’’فاؤسٹ‘‘ انسانی لغزشوں اور ایک انسان کی گمراہی کی کہانی ہے۔ ڈرامے میں شیطان یعنی میفسٹوفلیس (جو جرمنی میں ابلیس اور شیطان کا دوسرا نام ہے) سے خدا پوچھتا ہے کہ کیا تم فاؤسٹ کو جانتے ہو۔ شیطان جواب دیتا ہے کہ وہ تو بڑا پڑھا لکھا عالم اور علامہ دہر ہے۔ مسرت اور فن کا طلب گار ہے دنیا کی کسی خواہش کا طلب گار نہیں۔ بس اونچائی کی طرف جا رہا ہے۔ خدا جواب دیتا ہے کہ میں اسے جلد ہی نور سے مالا مال کر دوں گا۔ اگر تمہاری طاقت ہے تو اسے راہ راست سے ہٹا کر دکھاؤ کیونکہ وہ کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا۔ شیطان مسکرا کر کہتا ہے۔ مجھے یہ چیلنج منظور ہے۔ میں جیتنے والا گھوڑا ہوں۔ میری جیت میں کوئی شک نہیں۔ اور پھر شیطان فاؤسٹ کو بہلا پھسلا کر اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے۔ شیطان انسان کو ایک جھینگرسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا جو گھاس پر بازو پھیلاتا ہے اور پھر گھاس پر ہی گر کر دم توڑ دیتا ہے۔ کبھی کبھی گندگی کے ڈھیر پر گر جاتا ہے شیطان کا کہنا ہے کہ اب اسے انسان کو ورغلانے میں زیادہ تکلیف اور جدوجہد نہیں کرنا پڑتی۔ یہ خودبخود قباحتوںا ور گناہوں میں غرق ہو جاتے ہیں۔ شیطان فاؤسٹ کو لالچ دے کر اس سے روح کا سودا کرتا ہے اور اسے دنیا کی ہر نعمت دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ فاؤسٹ اس کی ہر بات مانتا ہے۔ اس کی ہر چال پر عمل کرتا ہے جب روح دینے کا وقت آتا ہے تو اسے خدا کی عظمت، رحمت اور طاقت کا احساس ہوتا ہے اور اسے ندامت اور شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہی ندامت اور شرمندگی اور توبہ ایک بار پھر اس کے اندر سوئے ہوئے انسان کو بیدار کر دیتی ہے۔ ’’فاؤسٹ‘‘ گوئٹے کا ایک عظیم شعری کارنامہ ہے۔ دانش روحانی اقدار، انسانی لغزشوں، پستی، بلندی کا ایک حسین مرکب ہے۔ گوئٹے کے علم، تجربے، مشاہدے اور فلسفیانہ طرز اسلوب نے اسے ایک عظیم شاہکار بنا دیا ہے۔ ’’فاؤسٹ‘‘ کی اپنی محبوبہ مارگریٹ سے گفتگو۔ شیطان سے مکالمے اور خدا کے حضور فاؤسٹ کی التجا اور آہ وزاری نے اس ڈرامے کو ایک لافانی انداز بخشا ہے۔ ’’فاؤسٹ‘‘ کے موضوع پر انگریزی ڈراما نگار کر سٹو فرما رلو نے بھی ایک بڑا جاندار ڈراما لکھا ہے۔ شیکسپیئر کے اس ہمعصر نے ایک بار تو لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ اگر مارلو اپنے آپ پر قابو رکھے ،شراب اور شباب سے نظر چرا کر لکھنے پر توجہ دے تو شیکسپیئر کا استھان ہل سکتا ہے مگر مارلو دو ایک ڈراموں کے بعد اپنی توجہ لکھنے لکھانے پر مرکوز نہ کر سکا۔ گوئٹے کا فاؤسٹ اور مارلو کا ڈاکٹر فاسٹس۔ دونوں کس حد تک فنی اعتبار سے ایک دوسرے کے ہم پایہ ہیں؟ یہ بات اس مختصر مضمون میں نہیں ہو سکتی، صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ وقت کے راستے پر دونوں دوڑ رہے ہیں۔ دونوں کے قدم تیز حرکت کر رہے ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی مہک ہے ایک لحاظ سے گوئٹے مارلو سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ گوئٹے نے فاؤسٹ میں شعری عظمت، تشبیہہ، استعارے اور زبان کے حسن کے علاوہ جس طرح فہم و دانش، اپنے مطالعے اور فکرو فلسفے کو اس ڈرامے میں برتا ہے وہ شاید کرسٹو فرمارلو نہیں کر سکا۔ یہی بات گوئٹے کو ایک امتیازی حیثیت دلاتی ہے۔ گوئٹے کی ادبی زندگی میں اس کے عہد کے ایک شخص کا بہت ہاتھ ہے۔ اس کا نام ہرڈر ہے۔ ہر ڈر سے ملاقات نے گوئٹے کی زندگی بدل دی۔ ہرڈر کی رہنمائی میں اس نے فرانسیسی طرزِ فکر سے دامن چھڑایا اور خالص جرمن فکر کو اپنایا۔ ہر ڈر ایک شدتِ احساس رکھنے والا آدمی تھا۔ گوئٹے کی تحریروں میں شدت، تیزی اور جذبات کا طوفانی لب و لہجہ ہرڈر کی دین ہے۔ ہرڈر کو آپ جرمنی ادب میں ایک نئے طرز اسلوب کا بانی کہہ سکتے ہیں۔ گوئٹے کے زمانے میں ایک انقلابی ادبی تحریک کا بہت بول بالا تھا۔ اس کا نام ’’طوفان و ہیجان‘‘ (Stum and Dranz) تھا یہ تحریک دس سال تک فعال رہی۔ گوئٹے اس کا رکن اور ہرڈر اسے منظم اور مضبوط انداز میں چلانے والا تھا۔ ہر ڈر کے بعد جس شخص نے اسکی زندگی میں بہت گہرا اثر چھوڑا وہ شیلر تھا۔ اس کی دوستی نے اس کی تخلیقی زندگی کو بڑی تقویت دی ’’فاؤسٹ‘‘ کی تحریر و تشکیل میں شیلر کی کوششوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ گوئٹے بے ترتیب زندگی گزارنے کا عادی تھا۔ شراب اور شباب کے سلسلے میں اس کی ساری عادات مغل اعظم کے چہیتے شیخو سے ملتی جلتی تھیں۔ شیلر سے ملاقات کے بعد اس نے پرانی زندگی الوداع کہہ دیا۔ شراب چھوڑ دی یہاں تک کہ کافی تک کو منہ نہ لگایا۔ اس دوستی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ شیلر نے گوئٹے کو خط لکھ کر ملاقات کی دعوت دی اور ملاقات کے بعد دوستی کی گرہ بندھ گئی جو شیلر کی موت تک قائم رہی۔ گوئٹے کو شیلر کی موت کا بہت دکھ ہوا جس کا سوگ وہ مرتے دم تک مناتا رہا۔ گوئٹے کی ایک اہم تصنیف(Wilehim Meister's Apprenticeship) ہے جو پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ جس پر گوئٹے نے 1777-1785ء تک کام کیا۔ گوئٹے کی فکر اور نظریات سمجھنے کے لئے یہ بہت اہم کتاب ہے (مضمون کی طوالت کی وجہ سے اس پر گفتگو ممکن نہیں) اس کے بارے میں مختلف نقادوں کے مختلف نظریات ہیں مثلاً G.H. Lewes کا کہنا ہے: ’’کسی فن پارے میں جتنی خامیاں ہو سکتی ہیں وہ اس میں موجود ہیں، سست روی، تھکا دینے والی کیفیات، کبھی کبھی بُری اور بیدلی سے لکھی ہوئی نثر‘‘۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ گوئٹے فرانسیسی فکر سے جرمن قوم کو الگ کرنا چاہتا تھا۔ روسو اگرچہ اسے پسند تھا لیکن وہ آنکھیں بند کر کے اس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا تھا اور اپنے خیالات اور نظریات کو لوگوں میں فروغ دینا چاہتا تھا۔ یہ کتاب طنز، رومانویت، حقیقت پسندی، روشن خیالی کا مرکب ہے۔ گوئٹے کی تحریروں پر نقادوں کے اعتراضات کی ایک لمبی فہرست مرتب ی جا سکتی ہے ایک بار گوئٹے نے اپنے سونح نگار (Eckermann) ایکرمن سے کہا تھا: ’’ورتھر میں لوگوں نے اتنی خامیاں نکالی ہیں کہ اگر میں ان حصوں اور فقرات کو کتاب سے نکال دوں تو ساری کتاب میں پڑھنے کے لئے کوئی سطر نہیں بچے گی‘‘۔ نقادوں کے بارے میں گوئٹے کا اپنا ایک مضبوط نظریہ تھا جس پر وہ ساری عمر قائم رہا۔ وہ اپنی سوانح عمری میں کہتا ہے: ’’نقادوں کے سامنے نہ آدمی جھک سکتا ہے۔ نہ اپنا دفاع کر سکتا ہے۔ ان سے بچنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ کام کرتے رہنا چاہیے ایک دن وہ خود آپ کے سامنے جھک جائیں گے‘‘۔ گوئٹے اپنی تحریروں میں اس مسرت کی تلاش کرتا رہا جو اس کے بس میں نہ تھی (فاؤسٹ۔ ورتھر کی داستان غم، شاعری اور دوسری تحریریں اس کی گواہ ہیں) یہی رومانوی ادیبوں کا مرکزی خیال ہے۔ گوئٹے کا فاؤسٹ انیسویں صدی میں ایک (Myth) کی شکل اختیار کر گیا۔ ورتھر کا کردار مثالی بن گیا۔ اس نے فارسی شاعر حافظ سے بہت اثر قبول کیا اور حافظ کی طرز پر نظمیں لکھیں اور اپنی اس کتاب کا نام دیوان رکھا۔ گوئٹے نے نثر اور شاعری میں جو بھی لکھا بے مثال لکھا اور اس کا بیشتر حصہ ضرب المثل بن گیا۔ سینکڑوں جملے دنیا کی مختلف زبانوں میں اپنی شان دکھاتے پھر رہے ہیں۔ چند جملے میں لکھے بغیر نہیں رہ سکتا جو مختلف زبانوں میں تحریک کی شکل اختیار کر گئے مثلاً: "Divide and rule, a sound motto, but unite and lead, a better one" "Enjoy when you can, endure where you must" "Art is long, life is short" گوئٹے کی ادبی، فکری اور خالص شعری تخلیقی صلاحیت کی ہلکی سی ایک جھلک آپ نے دیکھی، آئیے اب اس کی تخلیقی زندگی کا ایک دوسرا پہلو بھی دیکھیں جو گوئٹے کے نزدیک اس کی ساری زندگی کا اصل مقصد تھا۔ غالب نے ایک بار کہا تھا کہ اگر میری شاعری کی قدر و قیمت جاننا چاہتے ہو تو اردو کی بجائے میری فارسی شاعری پر نظر ڈالو۔ دیکھئے گوئٹے اپنے بارے میں کیا کہتا ہے۔ اپنے سوانح نگار ایکرمن سے ایک بار اس نے کہا: بحیثیت شاعر جو کچھ میں نے کیا مجھے اس پر کوئی فخر نہیں لیکن اس صدی میں، میں واحد آدمی ہوں جس نے رنگوں کی مشکل ترین سائنس میں منفرد کام کیا ہے جو کسی نے نہیں کیا اس پر مجھے فخر ہے‘‘۔ گوئٹے 22 مارچ 1832ء کو 82 سال کی عمر میں وائمار (Weimar) میں فوت ہوا۔ ایک بڑے آدمی نپولین نے کہا۔ ’’تم واقعی عظیم انسان ہو‘‘ اس کا سوانح نگار ایکرمن آخری منظر بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’جس صبح گوئٹے فوت ہوا میں اس کے گھر گیا۔ وفا دار ملازم فریڈرک نے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ میں نے گوئٹے پر نظر ڈالی اس کے چوڑے ماتھے پر اب بھی فکر کی لکیریں تھیں۔ اس کے جسم کے اردگرد برف رکھی گئی تھی۔ اس کا جسم سفید چادر میں لپٹا تھا۔ ایک خوبصورت آدمی جاہ جلال کے ساتھ لیٹا تھا۔ میں اپنی آنکھوں میں آنسو لے کر کمرے سے باہر آ گیا۔‘‘ گوئٹے کہنے کو مر گیا مگر اقبال، ڈارون، ہیگل، شیلر، شوپن ہاؤر، کارلائل، نطشے، آندرے ژید اور ترگنیف کی تحریوں میں کہیں نہ کہیں وہ آپ کو سراٹھا کر جھانکتا ضرور نظر آئے گا۔ (علم و دانش کے معمار از احمد عقیل روبی) ٭…٭…٭