muzafar ali (04-07-2016)
وادیٔ گومل میں رحمان ڈھیری کی دریافت اور اس کی تحقیق آثار ِقدیمہ کی تاریخ میں خاصی اہمیت رکھتی ہے۔ اس قدیم شہر کا شکار جو ڈیرہ اسماعیل خان سے چودہ میل اور چشمہ رائٹ بنک کینال سے کوئی دو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہر لحاظ سے جنوبی ایشیاء اور پاکستان کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ اس کی دریافت 1970ء میں شعبہ قدیم آثار پشاور یونیورسٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن دانی نے، جو ایک بین الاقوامی شہرت کے حامل سکالر ہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور اس کی تحقیق کا آغاز پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی کے طلبا کو بھی حاصل ہے۔ پاکستان کے ایک قدیم ترین شہر کی بنیاد محققین کی تحقیق کے مطابق قریباً 33 صد قبل ازمسیح میں رکھی گئی تھی چونکہ یہ شہر اس دَور میں دریائے سندھ کے کنارے آباد تھا اور موجودہ ڈیرہ اسماعیل خان کی طرح اس کی سرزمین زراعت کے لیے نہایت موزوں تھی۔ فضاء سے لی گئی، تصاویر رحمان ڈھیری کی منصوبہ بندی کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ شہر مستطیل کی شکل میں کوئی 18 سو فٹ شمالاً جنوباً اور 13 سو فٹ مغرب اور مشرق تک پھیلا ہوا ہے ۔مرکزی شاہراہ شہر کے وسط سے گزرتی ہوئی شہر کو دو یکساں حصوں میں تقسیم کرتی ہے اور اطراف کی گلیاں اس سے مل کر شہر کو ریگولر بلاکس میں موہنجودڑو کی طرح تقسیم کرتی ہیں۔ موہنجودڑو سے کوئی چھے سو سال قدیم ہونے کے باوجود محققین کی رائے میں اس کی آبادی کوئی دس ہزار افراد پر مشتمل تھی، جن کا ذریعہ معاش تجارت اور صنعت و حرفت پر مبنی تھا۔ زراعت میں گندم، جو، باجرہ، روئی اور سرسوں کی کاشت کو خاص اہمیت حاصل تھی ،یہاں سے حاصل شدہ کانسی اور پتھروں کے اوزاروں اور ہتھیاروں سے پتا چلتا ہے کہ ان اوزاروں اور ہتھیاروں کا بھی ان کی بودوباش میں اہم کردار رہا ہے، ان اشیائے خوردنی میں ہر قسم کے پرندوں اور جانوروں، مثلاً:مچھلی، ہرن، بھیڑ، بکری، گائے، بھینس اور خرگوش کا گوشت بھی شامل تھا اور دودھ مکھن کو بھی خاص اہمیت حاصل تھی۔ وادی ٔگومل کا یہ قدیم شہر رحمان ڈھیری، وادیٔ سندھ کی صنعت و تجارت کا گڑھ تھا۔ اس سے وسط ایشیاء اور مغربی ایشیاء کے ساتھ تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ یہاں سے حاصل شدہ مٹی کے برتنوں، سونے، کانسی، عقیق ،زمرد اور دیگر قیمتی پتھروں اور ہاتھی دانت کے بنے ہوئے زیورات وغیرہ کی تحقیق سے یہاں کی صنعت و حرفت کی عکاسی ہوتی ہے۔ کھدائی کے دوران یہاں سے ملنے والے ظروف پر ہرن ،بچھو اور مینڈک کے عکس کو خاص اہمیت حاصل ہے ،یہ نہ صرف موہنجودڑو اور ہڑپہ سے ملی ہوئی مہروں پر کندہ جانوروں اور رسم الخط کے ابتدائی دور کی نشاندہی کرتی ہیں بلکہ وادی ٔسندھ کی تہذیب کے پڑھنے لکھنے کی ابتداء میں وادی ٔگومل کی اہمیت کی گواہی دیتی ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ کی نگرانی میں جو کھدائی کی گئی اور ان سے حاصل شدہ تمام شواہد شہری منصوبہ بندی، صنعت و حرفت کی اشیاء، زیورات، ہتھیار ،اوزار، طرز رہائش، تجارت، مہرورسم الخط کی ابتداء اور ان شواہد کی تحقیق و تجزیئے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رحمان ڈھیری، وادی ٔگومل کا کردار، وادی ٔسندھ کی تہذیب و تمدن کے پھلنے پھولنے میں خاصا اہم رہا اور یہ کہ وادیٔ سندھ کی تہذیب اسی سرزمین سے ابھری باہر سے نہیں آئی جبکہ موہنجودڑو اور ہڑپہ اس تہذیب کے عروج کی عکاسی کرتے ہیں۔ الغرض رحمان ڈھیری کو اس کی ابتداء اور تہذیب کے ارتقاء کے سلسلے میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ( شیخ نوید اسلم کی کتاب ’’ پاکستان کے آثارِ قدیمہ‘‘ سے ماخوذ) ٭…٭…٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
muzafar ali (04-07-2016)
boht khoob sharing mazid achi achi sharing ka intzar rahe ga share karne ka shukrya
Kis Ki Kya Majal Thi Jo Koi Hum Ko Kharid Sakta Faraz,..Hum Tu Khud Hi Bik Gaye Kharidar DekhKe..?
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks