muzafar ali (04-07-2016)
ایک شیر بڈھا ہو کر کمزور ہو گیا۔ اب اس کی وہ اچھل کود، دوڑ دھوپ، سب جاتی رہی۔ جوان شیر آدمی پر حملہ نہیں کرتا، ہاں، بڈھا ہو کر آدمی کو مار ڈالتا ہے۔ دوسرا وہ شیر جو لگور ہو، یہ اور بات ہے، مگر شیرنی آدمی کو مار ڈالتی ہے اور اگر اس کے بچے ہوں تو پھر تو یہ بلا ہے اور شیرنی ہی پر کیا موقوف ہے۔ ہر شکاری جانور کی مادہ، عام یہ کہ وہ پرندہی ہو، بہ نسبت نر کے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ غرض یہ شیر بڈھا ہو گیا۔ اس نے یہ خیال کیا کہ اب شکار کا ہاتھ آنا تو مشکل ہے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ تو ایک گڑھے میں پڑارہ۔ جانور تیری مزاج پرسی کو آئیں گے، جو آئے گا، اسے آرام سے کھا لیا کروں گا چنانچہ شیر نے ایسا ہی کیا، جو جانور آتا، شیر اسے کھا جاتا۔ ایک روز ایک لومڑی آئی۔ لومڑی تو مکار بازی میں مشہور ہے۔ لومڑی نے غار کے قریب آکر دیکھا کہ گڑھے کے سرے پر جانور کے اندر جانے کے قدموں کے نشان تو ہیں، لیکن باہر آنے کا کوئی نشان نہیں۔ لومڑی یہ دیکھ کر معاملے کو بھانپ گئی۔ اسے معلوم ہو گیا کہ جو اندر گیا، شیر اسے کھا گیا۔ یہ سوچ کر لومڑی نے باہر ہی سے شیر کو آواز دی کہ ’’اے بادشاہ، نصیب اعدا ، حضور کے مزاج کی کیا حالت ہے؟‘‘ شیر نے جواب دیا کہ ’’یہاں آئو اور میری حالت دیکھو کہ میں کیسے مرض میں مبتلا ہوں‘‘۔ لومڑی نے شیر کی آواز سنی اور خیال کیا کہ یہ جملہ جو شیر کی زبان سے نکلا ہے، مریض بحالت مرض ایسا بے تکان کب بول سکتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ شیر مکر کرتا ہے کہ میں اندر جائوں اور وہ مجھے کھا جائے چنانچہ لومڑی نے جواب دیا کہ ’’اے بادشاہ تجھ کو خدا تندرست رکھے۔ مجھ سے آپ کے مرض کی حالت کب دیکھی جائے گی کہ آپ بوجہ مرض کے باہر تک تشریف نہیں لاسکتے۔ مجھے یہاں آکر اور یہ حالت دیکھ کر سخت ملال ہوا۔ لہٰذا میں تمام جانوروں کو جمع کر کے کسی متبرک جگہ جا کر خدا سے جناب کی صحت کی دعا مانگتی ہوں کہ خدا رحم فرمائے‘‘۔ غرض یہ لومڑی روانہ ہوئی۔ اب لومڑی نے غور سے آواز سن کر یہ نتیجہ نکالا اور ذہن نے مشورہ دیا۔ذہن ایسی ہی شے ہے کہ اگر آپ اس سے کام لیں ،تو ہزاروں آفتوں سے بچاتا ہے اور آدمی کو آدمی بنا دیتا ہے۔ اگر ہم پابندی کرنے لگے، تو تم دنیا میں جیسا بننا چاہتے ہو، ویسی ہی باتیں سن کر پابندی کرو، ویسے ہی جائو گے۔ دنیا میں جو بنا اچھی باتیں سن کر اور ان کی پابندی کر کے بنا۔ دنیا تو کام کرنے والے کو چاہتی ہے۔ یوں خدا چاہے تو دے، لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ بھی حق دار ہی کا خیال رکھتا ہے۔ اگر قدرت کو یہ منظور ہوتا کہ بے محنت دے، تو ہم کو ایسے ڈھیلے اعضاء نہ دیتی۔ تو تم کیا ہوتے؟ ایک گوشت کا لوتھڑا ہوتے اور ایک ہی جگہ پڑے رہتے۔ ہم کو تو ہمارے اعضاء بتا رہے ہیں کہ ہم بے کار نہیں ہیں۔ دنیا میں ہم کو دو چیزیں نظر آتی ہیں، ایک نیکی، دوسری بدی اور اکثر صاحب نیکی اور بدی کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ یہ خیال غلط ہے کیونکہ بلاتشبیہ نہ خدا ناقص ہے نہ خدا نے بدی پیدا کی۔ بدی تو ہم پیدا کرتے ہیں اور جب ہم نیکی کو چھوڑتے ہیں تو بلا خوف بدی میں ڈوب جاتے ہیں کیونکہ دنیا میں جو کچھ ہے اور ہو رہا ہے اور ہو گا، یہ سب زمانے ہی کے پیٹ میں ہے اور زمانہ اگر آنوں پر تقسیم ہے تو ہم آن کو بتاہی نہیں سکتے کہ کتنے چھوٹے سے وقفے کو آن کہتے ہیں اور دنیا میں خلا محال ہے۔ بس پھر کیا ہوتا ہے کہ نیکی چھوڑی اور ساتھ ہی بدی میں ڈوبے۔ بس پھر یہ مرض لا علاج ہے اور کسی نے خوب کہا ہے کہ ’’خود کردہ اعلاجے نیست‘‘ اور کچھ نہ سہی، نیکی کا چھوڑنا ہی بدی ہے۔ بری بات نہ سنو اور نہ بری بات زبان سے نکالو۔ ؎مزن فالِ بد کاورد حالِ بد (کاناباتی از: میرباقر علی داستان گو
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
muzafar ali (04-07-2016)
boht achi sharing ki he humare sath
Kis Ki Kya Majal Thi Jo Koi Hum Ko Kharid Sakta Faraz,..Hum Tu Khud Hi Bik Gaye Kharidar DekhKe..?
muzafar ali (04-08-2016)
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks