امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
ہونٹ جلتے رہے تھا سمندر یہاں
آگ پہ پانیوں سے لکھا ہے دھواں
جل گئی خاک پہ اگ رہی ہے زمیں
اٹھ گئے ہاتھ کی جھک گئی ہے جبیں
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
کھل گیا راستہ اب فلک تا زمیں
فاصلہ جیسے ہو بس یہاں سے یہیں
کھل گیا راستہ اب فلک تا زمیں
فاصلہ جیسے ہو بس یہاں سے یہیں
انگلیاں کاٹ کے ہیں بنائے قلم
لوح خالی رہے اب یہ ممکن نہیں
روشنی یوں بہے جیسے کوئی ندی
ایک پل کے لئے روک لی ہے سبھی
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
درد دوپہر کو صبحیں اکثر ہی ملنے ملانے لگیں
زخم تازہ مگر ٹیس اٹھتے ہوئے مسکرانے لگی
چھین کر لے گئے تھے جو میری خوشی
درد کو بھی میرے ان پہ آئے ہنسی
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
!میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks