بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ و نستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیّاٰت اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ و نشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و نشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ ارسلہ بالحق بشیراً و نذیرا بین یدی الساعۃ من یطع اللہ و رسولہ فقد رشد ومن یعصھما فانہ لایضرالا نفسہ ولا یضراللہ شیئاً۔ اما بعد! فاعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیمط قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۝۱ۚ اَللہُ الصَّمَدُ۝۲ۚ لَمْ يَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ يُوْلَدْ۝۳ۙ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ (سورة الاخلاص)
اللہ تعالیٰ نے فرما یا ہے کہ کہہ دیجیے کہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے، اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے، اور نہ کوئی اس کا ہم جنس ہے۔​
اس آیت کریمہ کے شان نزول کے متعلق مسند احمد میں ہے، کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا، کہ آپؐ اپنے رب کے ا وصاف بیان کیجیے، تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، کہ اللہ ایک ہے، وہ بے نیاز ہے، نہ وہ والد ہے، نہ مولود ہے، نہ اس کا کوئی شریک وہم جنس ہے۔
اس آیت سے خدا کی وحدانیت اور یکتائی ثابت ہوتی ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں اکیلا ہے، ان باتوں میں اس کا کوئی ساجھی نہیں ہے، نہ اس کے برابر کوئی ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، وہ ہر قسم کے عیبوں سے پاک ہے، وہ کسی چیز کا محتاج نہیں، بلکہ سب اس کے محتاج ہیں، وہ ہرچیز پر قادر ہے، کوئی چیز اس کو عاجز نہیں کر سکتی، وہی غیب جانتا ہے، وہ کسی کے مشابہ نہیں، اس کی ذات و صفات کے ساتھ کوئی حادث قائم نہیں ہے اور نہ اس کی ذات و صفات میں حدوث ہی ہے۔ وہ اپنی ذات و صفات و افعال میں یکتا ہے، وہ عالم سے جدا ہے، وہ سب کا خالق ہے، اس لیے وہ ہر قسم کی عبادتوں کا مستحق ہے، اسی توحید کی تعلیم کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں اور نبیوں کو بھیجا، اور ہر ایک نبی اور رسول نے یہی تعلیم دی ، چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۔ (الانبیاء :۲۵)
اے ہمارے نبی! ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے سب کو یہی حکم دیا تھا کہ میں ایک اکیلا ہی عبادت کے لائق ہوں، تم صرف میری عبادت کرتے رہنا۔
وَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ۔ (البقرہ:۱۶۳)
لوگو! تمہارا صرف ایک ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ بہت رحم کرنے والا بڑا مہربان ہے۔
وَقَالَ اللہُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـہَيْنِ اثْـنَيْنِ۝۰ۚ اِنَّمَا ہُوَاِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ فَاِيَّايَ فَارْہَبُوْنِ۔ (النحل:۵۱)
اور اللہ نے فرمایا: دو معبود (خدا)نہ بناؤ بس وہ ایک ہی خدا عبادت کا حق دار ہے، تم مجھ ہی سے ڈرو۔
قُلْ اِنَّمَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّـمَآ اِلٰــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ (الانبیاء:۱۰۸)
کہہ دو بس مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے، کہ تمہارا صرف ایک ہی خدا عبادت کے لائق ہے، تو اب تم مسلمان بن جاؤ۔
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا مُنْذِرٌ۝۰ۤۖ وَّمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۔ (ص:۶۵)
اور وہ ایک خدا عبادت کے لائق ہے جو سب پر قابو پانے والاہے۔
سُبْحٰنَہٗ۝۰ۭ ہُوَاللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۝۴ (زمر:۴)
پاک ہے وہ تو اکیلا ہے اور سب پر دباؤ رکھنے والا ہے۔
اس قسم کی اور بہت سی آیتیں قرآن مجید میں ہیں جن سے خدا کی وحدانیت ثابت ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات کاملہ میں یکتا ا ور بے مثل ماننے کا نام توحید ہے، ایسی توحید صرف مذہب اسلام ہی میںپائی جاتی ہے، چنانچہ دنیا میں اسلام کے سوا جتنے مذاہب ہیں یا تو ان میں سرے سے توحید ہی نہیں ہے یا ہے تو ناقص، مثلا مجوسی یزدان اور اہر من دوخداؤں کو مانتے ہیں ا ور اپنے اس عقیدے کی بنا پر کہتے ہیں کہ یزدان خیر کا مالک ہے ا ور اہر من شر کا۔ یہودی لوگ حضرت عزیر ؑ کی ابنیت کے قائل ہیں، یعنی یہ کہ نعوذ باللہ یہ خدا کے بیٹے ہیں ، عیسائی حضرات میںکئی خدا ہیں، کچھ لوگ عقیدہ تثلیث کے قائل ہیں ، یعنی یہ کہ خدا مسیح اور روح القدس تینوں مل کر خدا ہیں، ایک تین ہے اور تین ایک ہے اور کچھ حضرت مسیح ؑ کی الوہیت کے قائل ہیں، یعنی یہ کہ نعوذ باللہ حضرت خود خدا تھے آریہ صاحبان پر میشور کے ساتھ ساتھ روح اور مادہ کے قائل ہیں جو خدائی شان کے خلاف ہے، سناتن دھرمی لوگ سینکڑوں دیوتاؤں کی پرستش کے قائل ، اور برہمابشن مہادیو کو ایشور کا نائب بلکہ مالک اور مختار کل سمجھتے ہیں بخلاف اس کے مذہب اسلام میں عقیدہ توحید کی بہت اہمیت اور تاکید ہے۔
توحید کی قسمیں:
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ رسالت میں یہی تین قسم کے بڑے گروہ موجود تھے، جو اپنی اختیار کردہ غلط راہ توحید کو اپنا دین و ایمان سمجھ رہے تھے، اس لیے رب العزت نے ان سب غلط ا عتقادوں کی جو مسئلہ توحید کے متعلق پیدا ہو سکتے تھے اور ہو چکے تھے، کافی طور پر تردید کی ، اور لوگوں کو توحید فی الذات اور توحید فی الصفات اور توحید فی العبادات کی ایسی تعلیم دی ، جس سے اس کی خالص اور مکمل توحید کا مبارک اعتقاد ذہن نشین ہوا۔


توحید فی الذات:
خدا تعالیٰ کی ذات کو سب عیوب و نقائص سے خالی اور بے مثل ماننے کا نام توحید ذاتی ہے، اور اس توحید کی تکمیل دو امور پر موقوف ہے ایک امر یہ کہ اللہ جل شانہ کی ذات کو مختلف اور متعدد اجزا سے مرکب اور مجسم تسلیم نہ کیا جائے، یعنی خدا تعالیٰ ایک ہے اس لحاظ سے کہ وہ مرکبات کی طرح اجزا سے مرکب نہیں ہے، قرآن پاک نے خدا تعالیٰ کی ذات مرکب و مجسم نہ ہونے کی تعلیم دی ہے، اور جو لوگ خدا کی نسبت مجسم اور مرکب ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے، مختلف پیرایوں میں ان کی تردید کی اور تمام دنیا کو آگاہ کیا، کہ خدا تعالیٰ کی ذات کو مجسم ا ور مرکب ماننے کا اعتقاد ذرا بھی صحیح نہیں ہے۔
توحید فی الصفات:
وہ تمام کمال کی صفتوں سے موصوف ہے، کوئی شے اس سے پوشیدہ نہیں ہے بلکہ وہ دیکھتا ہے، سنتا ہے، کلام کرتا ہے، وہ زندہ ہے، تمام ممکنات اور مخلوقات پر اس کو پوری قدرت حاصل ہے، اس نے ہی تمام چیزوں کو اپنے ارادے سے پیدا کیا ہے، وہی جلاتا ہے وہی مارتا ہے، وہی لائق عبادت ہے، وہی روزی دیتا ہے، وہی دعا قبول کرتا ہے، وہی عزت دیتا ہے ، وہی ذلت دیتا ہے، وہی مریضوں کو شفا دیتا ہے، وہی مصیبتوں کو ٹالتا ہے وہی گناہ گاروں کو بخشنے والا ہے، برائی بھلائی دونوں کا پیدا کرنے والا ہے، لیکن نیکی سے راضی اور بدی سے ناخوش ہوتا ہے۔ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں، وہ عالم کی حفاظت سے تھکتا نہیں، نہ وہ سوتا ہے نہ وہ اونگھتا ہے، اسی نے سب کو پیدا کیا ہے، وہی جب چاہے گا سب کو فنا کر دے گا ، پھر سب قیامت کے دن پیدا کرے گا، اور حساب کتاب لے گا، نیک بندوں کو جنت میں اور بدوں کو دوزخ میں داخل کرے گا۔
توحید فی العبادت:
باری تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا، غیر اللہ میں کسی کو عبادت کے لائق نہ جاننا اور اس کے سوا کسی کے آگے نہ جھکنا اور نہ سجدہ کرنا، اور نہ کسی کی تسبیح و تحمید پڑھنا، یہ توحید فی العبادت ہے، اس کے خلاف کرنا شرک فی العبادات ہے، شرک کی پوری تفصیل و تردید آئندہ انشاء اللہ بیان کی جائے گی۔ اسلام نے ابتداء آفرینش سے انتہا تک یہی کوشش کی ہے کہ شروع سے آخر تک توحید ہی پر قائم رکھا جائے۔ اور ازل میں اسی کا اقرار کیا تھا، پھر دنیا میں آنے کے بعد اسی کی پابندی کا حکم دیا، چنانچہ حکم ہے کہ جب بچہ پیدا ہو، تو اس کے کان میں اللہ اکبر اللہ اکبر کہو، اور جب بولنے لگے تو پہلے یا اللہ سکھاؤ، اور کچھ ہشیار ہو، تو کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنا سکھاؤ، جس کے معنی ہیں، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، پھر حکم ہوتا ہے، کہ جب لڑکا لڑکی سات برس کی عمر کو پہنچ جائیں ، تو انہیں نماز پڑھاؤ، اور جب دس برس کے ہو جائیں تو تاکید سے پڑھاؤ، جس میں شروع سے آخر تک ، دیگر امور کے علاوہ خصوصیت سے توحید پائی جاتی ہے









Similar Threads: