صفر
میں ایک نقطہ ہوں
اک ستارہ
جو تیری پلکوں کے آسماں پر
نہ جانے کب سے لرز رہا ہوں
میں ایک قطرہ
سمندروں کی بکھرتی موجوں کی ڈور میں
جانے کتنے موتی پرو گیا ہوں
میں ایک ذرہ
مگر یہ دھرتی یہ چاند، تارے
میں جن کا محور بنا ہوا ہوں
جو میری سمتوں میں بٹ گئے ہیں
میں ایک نقطہ۔ اگر میں پھیلوں
تو دشتِ امکاں کی وسعتیں تک محیط کر لوں
یہ سب زماں و مکاں کی دولت
میں اپنی مٹھی میں بند کر لوں !!
٭٭٭
Bookmarks