دسمبر لوٹ جاتا ہےاُسے کہنا کہ حیرانی مجھے حیرت سے تکتی ہےمرے جیون پہ خود بھی زندگی روتی ہےہنستی ہےنظر جب بھی ہتھیلی کی لکیروں سے الجھتی ہےان آنکھوں سے جھڑی ساون کی پھر کچھ ایسی لگتی ہےمرا دل رک سا جاتا ہےمہینہ ہجر کا جب بھی مرے آنگن میں آتا ہےاداسی کے ہر اک منظر کو وہ موجود پاتا ہےنگاہوں کو جھکا کر بس دسمبر لوٹ جاتا ہے٭٭٭
Bookmarks