کہیں پہ گرد کہیں پر ہوا بناتی ہوں
میں خود کو اب تو بس اپنے سوا بناتی ہوںکہیں پہ تارے کہیں پر ہیں آس کے جگنوخزاں میں بھی میں گلوں کی فضا بناتی ہوںبکھر گئے تھے کسی نام کے حروف کہیںاب ان کو جوڑ کر اِک آئینہ بناتی ہوںیہ طے ہے اُس کو اگر لوٹ کر نہیں آناتو کس لیے میں دعا کو عصا بناتی ہوںاُجالتا ہے یہ تاریکیاں مرے دل کیتمھاری یاد کو ہر پل دیا بناتی ہوںجب اپنے اشک چھپاتی ہوں مُسکراہٹ سےتو اپنے درد کو اپنی دوا بناتی ہوںتراش کر کسی پتھر کے ایک پیکر کوکمال عشق سے اُس کو خدا بناتی ہوںکہ خواب میں رہے تا دیر گفتگو تجھ سےذرا سی بات کو میں واقعہ بناتی ہوںسناتھا میں نے جو شاہینؔ ایک لمحے کواس ایک لمحے کو اپنی صدا بناتی ہوں٭٭٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks