ایک صاحب کی بے چینی عروج پر ہے... حالت اضطراب میں ہیں...بار بار ناف کے زیریں حصے پر ہاتھ جما کر اپنے آپ کو بے اختیار ہونے سے بچا رہے ہیں... اور ان کے آگے ابھی تین چار متاثرین انہی کی حالت زار میں ہیں تو وہ صاحب اپنے آگے کھڑے امیدوار کی کمر پر ہلکے ہلکے کچوکے دیتے ہیں کہ بابا جلدی کرو... اور وہ بابا جلدی کیسے کریں، ان کے آگے بھی تو دو تین اضطراب کے پیکر پہلو بدلتے ہیں... تو ان بابا صاحب کو شاید گدگدیاں ہوتی تھیں تو جونہی ان کے پیچھے منتظر حاجی بابا ان کی کمر میں کچوکے دیتے تو وہ ذرا جھک سے جاتےتھے... قدرے لہک سے جاتے تھے... بالاخر انہوں نے پلٹ کر کہا "آپ کا کیا خیال ہے، میں یہاں رقص کرنے لیے آیا ہوں جو یوں گدگداتے چلے جا رہے ہیں..."
ایک اور صاحب بھی "ایمرجنسی" میں مبتلا ہیں اور خوش قسمتی سے ان کے اور لبِ بام کے بیچ صرف ایک حاجت مند کھڑے ہیں اور وہ غسل خانے کے تادیر بند آہنی دروازے پر ہاتھ رکھے آس لگائے کھڑے ہیں... یہ صاحب جو دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے پیچھے کھڑے ہیں، کچھ زیادہ ہی ایمرجنسی میں مبتلا ہیں تو ان سے منت کرتے ہیں کہ بھائی مجھے پہلے اندر جانے دو... مت پوچھو کہ کیا حال ہے میرا تیرے پیچھے... ان کی ٹھوڑی کو چھوتے ہوئے ایک عجیب سی لجاعت آمیز آواز نکالتے ہیں... کہ آآ...ہوہو...ڈن شان...الحمدللہ... کہ دونوں کی زبانیں الگ الگ ہیں... کہہ یہ رہے ہیں کہ بھائی جان ... ہم ایک امت ہیں... ایک بدن ہیں اور بدن کے جس حصے میں درد ہوتا ہے تو پوری امت کو درد ہوتا ہے... تو یہ درد سہا نہیں جا رہا۔ آپ مہربانی کرو... اپنی باری مجھے دے دو، میں سخت تکلیف میں مبتلا ہوں... یہ مصیبت یہیں کہیں خارج نہ ہو جائے... مجھے پہلے جانے دو، آپ کی مہربانی!
اور وہ صاحب جو غسل خانے کے آہنی دروازے پر ہاتھ رکھے اس کے کھلنے کے منتظر ہیں، ان کا ہاتھ ٹھوڑی سے ہٹا کر کہتے ہیں ،اور اپنی زبان میں کہتے ہیں "آہاآہا...ہوہو...سبحان للہ"
یعنی میں جو اتنی دیر سے کھڑا ہوں اور اپنے آپ کو روکے ہوئے ہوں... اپنی باری تمہیں دے دوں... گھاس چر گئے ہو کیا... میں امت کے لیے اتنی بڑی قربانی نہیں دے سکتا...
ایک اور حاجت مند... اور اس وقوعے کے چشم دید گواہ یوسف شاہ صاحب ہیں جو ہمارے ہم سفر تھے... برما میں پاکستان کے سفیر تھے اور پٹھان ہونے کے ناطت بُوباس سے عاری نہایت زندہ دل اور ہنس مکھ تھے۔
ان کا پسندیدہ موضوع بھی منیٰ کے غسل خانے تھے...
بقول ان کے ایک صاحب اپنی ناف کے زیریں حصے کو دونوں ہاتھوں سے کنٹرول کرتے ہوئے قطار میں اپنے آگے کھڑے حضرت سے درخواست کرتے ہیں کہ للہ... کرم کیجیے، مجھے پہلے جانے دیجیے کہ روانی آب ہوا ہی چاہتی ہے...
اور وہ صاحب پلٹ کر کہتے ہیں... آپ کے ہاں تو ہو ہی چاہتی ہے... ہمارے ہاں اس کا آغاز ہو چکا ہے... اور قطرہ قطرہ دریا مے شود ہوا جا رہا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔منیٰ میں یہ واحد شکایت تھی...
اگرچہ ہم نے کچھ تجربے اور کچھ ادھر ادھرتانک جھانک کر کے جان لیا تھا کہ اگر ہم نزدیکی پاکستان ہاؤس کے پہریدار سے نظر بچا ئے وہاں کے غسل خانوں تک پہنچ جائیں تو فراغت نسبتاً آسانی سے ہو سکتی تھی
منہ ول کعبے شریف سے اقتباس
مستنصر حسین تارڑ



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out

Bookmarks