ایک آوارہ گرد کے لئے چاہے وہ ایشیاء میں ہو یا یورپ میں،سب سے ہیجان خیز لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہ پیدل چلتے۔۔کسی بس یا کار یا سفر کرتے یکدم شاہراہ کے کنارے آویزاں کسی سنگِ میل کو دیکھتا ہے اور اس پر ایک ایسے شہر کا نام ابھرا ہوا دیکھتا ہے جسے اس نے تاریخ کی کتابوں میں یا تخیل میں ہی دیکھا ہوتا ہے۔۔روم۔۔اتنے کلومیٹر۔۔پیرس۔۔برلن۔۔سٹاک ہوم۔۔بیروت۔۔۔دمشق۔۔اشبیلیہ۔۔۔استنبول۔۔۔گلگت۔۔۔کاشغ ر۔۔۔شی آن۔۔اور وہ ایک عجیب جنسی تلذّذ کی قربت میں سانس لیتی ہوئی ہیجان خیزی میں ان میں سے کسی ایک نام کو سنگِ میل پر درج دیکھ کر اپنی خوش بختی پر نازاں ہوتا ہے۔۔اور یہ شہر۔۔جس کی جانب میں سفر کرتا تھا،کل خدائی ہر روز پانچ بار اس کی جانب چہرہ کرتی اور جھکتی تھی۔۔اُن میں سے کسی ایک شہر کی جانب کوئی ایک بھی جھکتا نہ تھا تو وہ اُن میں افضل تھا اور اس کے باوجود مجھ پر چنداں اثر نہ ہواکہ میں نے اپنے آپ کو نیوٹرل گئیر میں ڈال رکھا تھا۔۔۔جدہ سے نکلنے والی شاہراہ پر نصف شب کے بعد جب کہ جدہ کی بےرحم روشنیاں پیچھے رہ گئیں تھیں اور ایک بےآباد صحرائی وسعت کی تاریکی کار کے اندر آرہی تھی ایک دوراہا آگیا۔۔شاہراہ تقسیم ہوگئی۔۔سائن بورڈ پر ہدایت کی حروف درج تھے۔۔مکہ مکرمہ۔۔سیدھے چلے جائیے۔۔مدینہ منورہ۔۔بائیں جانب مڑجائیے۔۔البتہ اس مدینہ منّورہ کو زندگی میں پہلی بار ایک سائن بورڈ پر لکھا دیکھ کر میرا نیوٹرل گئیر ڈولنے لگا۔۔ٹوٹنے کو آیا۔۔میراحلق خشک ہوگیااور ماتھے پر پسینہ پھوٹنے لگا۔۔کوئی اور گئیر لگ گیا۔۔میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالااور پھر سے نیوٹرل گئیر میں ڈالا۔اِدھر یا اُدھر؟بڑا کھٹن سوال تھا کہ اِدھر یا اُدھر۔۔شہروں کی ماں کے پاس چلیں یا وہ شہر جو منّور ہے اُدھر کا رُخ کریں۔۔چونکہ ہم نے گھر سے نکلتے ہوئے فیصلہ کرلیاتھا کہ پہلے اِدھر پھر اُدھر۔۔بہت بعد میں یہ کھلا کہ نہیں پہلے تواُدھر۔۔پھر اِدھرلیکن یہ تو بہت بعد میں کھلا۔۔تو فی الحال اِدھر۔۔مجھے علامہ اسد کی کتاب “روڈ ٹو مکہ“ یاد آتی چلی جاتی تھی۔۔اور میں آج روڈ ٹو مکہ پر جاتا تھا۔۔اِدھر کو سفر کرتا مسافر تھا۔۔جو ایک نام کو سائن بورڈ پر دیکھ کر نیوٹرل گئیر کے باوجود ایک چُپ سناٹے میں اِدھر یا اُدھر کی کشتی کے دھاگےالجھتے رہے۔۔ان کا کوئی سرا ملتا نہ تھاکہ یہ اتنے اُلجھے ہوئے تھے۔۔یار پہلے اُدھر ہو آتے چپکے سے۔۔پھر اِدھر بھی آجاتے۔۔اِدھر بھی آجاتے۔۔اِدھر والے کا جو بھی محبوب ہے،وہ پیارا ہے تو اُس کے در پر اگر پہلے دستک دے آتے تو عاشق نے ناراض تو نہیں ہونا تھا۔۔لیکن اُدھر والے کا۔۔سبز گنبد والے کا چونکہ حکم تھا کہ پہلے وہاں جاؤجو مجھ سے عشق کرتا ہے تو ہم اُس کے فرمان کے تابع اِدھر جارہے تھے۔۔یوں کچھ تسلی ہوئی۔۔منہ ول کعبے شریف مستنصر حسین تارڑ
Bookmarks