علامہ اقبال سے ایک مختصر ملاقات



سید مہدی حسن
کچھ آٹھ برس کا زمانہ بنگلور کی تجربہ گاہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس میں گذارنے کے بعد اپنے سابقہ وطن حیدر آباد دکن واپس ہوا۔ یہ 1925ء کا زمانہ ہے۔ روزی کی تلاش کرتے ہوئے پتہ چلا کہ مہاراجہ سرکشن پرشاد جی سی آئی ای، جو سابق مدار المہام حیدر آباد رہ چکے تھے، کو ایک پرائیوٹ سیکرٹری کی ضرورت ہے جو انگریزی خط و کتابت کر سکے۔ اس خدمت کو قبول کرنا پڑا مگر شوق کی وجہ سے اپنے پرانے شغل یعنی سائنس کی خدمت جوں توں جاری رکھنی پڑی۔ جنوری 1926ء میں تمام ہندوستان کی سائنس کانگرس (آزمودہ علم کی مجلس) کا جلسہ لاہور میں ہونے والا تھا اور میں نے لاہور جانے کے لیے کچھ دنوں کی رخصت چاہی۔ مہاراجہ بہادر نے فرمایا جب تم لاہور جا رہے ہو تو سر محمد اقبال سے ضرور ملنا اور میرا خط دینا۔ چنانچہ جب تمام جلسے ختم ہو چکے تو میں علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا اور مہاراجہ بہادر کا خط پیش کیا ۔ اس ملاقات کی اصلی گفتگو کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔ علامہ اقبال: آپ کا لاہور کس سلسلہ میں آنا ہوا؟ خاکسار: سائنس کانگرس کا جلسہ اس سال لاہور میں منعقد ہونے والا تھا اس لیے میری حاضری یہاں ضروری تھی۔ آپ کا مہاراجہ بہا در کے پاس ہوتے ہوئے سائنس سے کیا تعلق ہے؟ میری اصلی دلچسپی تو سائنس ہی سے ہے مگر روزی کے لیے مہاراجہ بہادر کے ہاں ملازمت قبول کرنی پڑی۔ جب آپ کو سائنس سے اس قدر لگائو ہے تو مہاراجہ کے ہاں آپ کی کیسے گذرتی ہے؟ صرف دو باتوں کی وجہ سے اچھی گزرتی ہے۔ اولاً ان کو بچے بہت پسند ہیں۔ کوئی نہ کوئی بچہ ان کے ارد گرد ہر وقت موجود رہتا ہے۔ مجھے خود بچے بے حد عزیز ہیں اور اسی طرح سے میرے والد کو بھی (جو اس وقت با حیات تھے)گویایہ بات میرے خون میں ہے۔ دوسری بات جس کا مجھے کبھی خیال بھی نہیں آسکتا تھا وہ تصوف ہے۔ میں ایک شیعہ گھرانے کا فرد ہوں۔ صوفیوں کا ذکر گا ہے بگاہے سنا کرتا تھا۔ مگر مہاراجہ کے پاس ہر روز اسی کا چرچا رہتا ہے اور میرا دل خواہ مخواہ ان باتوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ اس لگائو کا مجھے کبھی اندازہ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ بات سننی تھی کہ حضرت اقبال نے ایک تقریر شروع کی۔ کچھ مضمون کی برکت کچھ ان کے کلام کی برکت تھی کہ مجھ پر ایک وجد کی سی حالت طاری ہوئی جس کا اثر یہ ہوا کہ بقول ایک شاعر: کیا اس نے کہا تھا یہ مجھے کچھ یاد نہیں ہے (کتاب ’’علامہ اقبالؒ کی تابندہ یادیں‘‘ سے اقتباس)