کبھی کبھارکنگ فیصل سپیشلسٹ ہسپتا ل کے پرسکون ماحول میں یکدم ہلچل مچتی، پولیس اور فوج کے دستے اچانک وہاں پہنچ جاتے۔ ہسپتال کے لان اور میدانوں میں راتوں رات بے شمار خیمے نصب ہو جاتے۔ یہ بادشاہ یا ولی عہد کے ہسپتال میں داخل ہونے کی نشانی تھی۔ ہر چند کہ شاہی خاندان کے عالیشان وارڈ اور کمرے ہسپتال کی دوسری عمارتوں سے قدرے ہٹ کر بنائے گئے تھے، پھر بھی سارے ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ ہو جاتی۔ ہسپتال کا گوشہ گوشہ مہک اٹھتا تھا۔باہر ہر وقت گاڑیاں کسی بھی چیز کو بروقت منگوانے کے لیے تیار کھڑی رہتیںاورہم بھی ہر قسم کی ادائیگی کے لیے علیحدہ سے رقم مخصوص کر لیتے تھے، جس کے استعمال کے لئے لمبی چوڑی کاغذی کارروائی ضروری نہ تھی،پھر بادشاہ کی تیمارداری کے لیے پورے ملک سے مختلف قبیلوں کے سردار آ کر خیموں میں مقیم ہو جاتے، جہاں ان کی خاطرمدارات بہترین کھانوں سے کی جاتی تھی۔سعودی عرب کی روایت کے مطابق ایسے موقعوں پر قبائلی سرداروں کی حاضری ضروری تصور کی جاتی تھی اور وہ اپنے بادشاہ کی مصیبت کی گھڑی میں وہاں موجود رہتے۔بادشاہ جب بھی صحت مند ہو کر جاتے تو بھرا میلہ اجڑ جاتا اور ہسپتال اپنی اصلی حالت میں واپس آجاتا۔ ایسے ہی ایک واقعے سے جڑی ایک بات مجھے یاد آرہی ہے کہ ایک دفعہ میں سالانہ تعطیلات پر اپنے گائوں آیا ہوا تھا۔پتا نہیں کہاں سے دو سعودی باشندے وہاں آ گئے ،میں بڑا حیران ہوا کہ یہ لوگ یہاں اتنی دور کیسے پہنچ گئے۔ انہوں نے سعودی لباس پہنا ہوا تھا اور سعودی لہجے میں ہی فصیح و بلیغ عربی زبان میں گفتگو کر رہے تھے،جو یقینا مجھے تو سمجھ آرہی تھی،دوسروں کو نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں تبلیغ کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور وہ اب اپنے گروہ کے ساتھ ملنے کے لیے لاہور جانا چاہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں انہیں کچھ مالی امداد درکار ہے۔ میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا، خیال آیا کہ میرے پاس آج جو کچھ بھی ہے، انہی کے ملک سے کمایا ہوا ہے، آج اگرمیرے ان دوستوں کو میری مدد کی ضرورت آ پڑی ہے ،تو مجھے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ یہ سوچ کر میں نے نہ صرف یہ کہ ان کی خوب آئو بھگت کی بلکہ اچھی خاصی رقم بھی ان کی خدمت میں پیش کی، پھر ان کو قریب ترین بس اڈے تک چھوڑنے کا انتظام بھی کر دیا۔ دل بڑا مسرور تھا کہ آخر کار آج میرے ہاتھوں بھی کوئی نیک کام انجام پایا۔ غرض بات آئی گئی ہو گئی۔دو دن بعد میرے خالو منظور ملتان سے آئے ،ان سے برسبیل تذکرہ ان سعودیوں کا ذکر ہوا، تو وہ ہنسنے لگے اور بتایا کہ وہ تو ملتان کے نوسرباز ہیں۔ کسی زمانے میں سعودی عرب میں رہ چکے تھے۔ اب اپنے آپ کو سعودی بتا کر گائوں گائوں جا کر یہ اسی طرح کے ڈرامے کرتے ہیں اور سادہ لوح لوگوں سے رقم بٹورتے ہیں۔ مجھے اپنے نکو بن جانے پر بڑا افسوس ہوا ،پھر سوچا کہ میں نے تو سچے اور کھلے دل سے ان کی مدد کی تھی۔ اب میں یہ معاملہ اپنے رب پر چھوڑتا ہوں، وہ ہی عظیم ہے اور دلوں اور نیتوں کا حال خوب جانتا ہے۔ اس کا صلہ مجھے یہ ملا کہ جیسے ہی چھٹیاں گزار کر میں واپس اپنی ڈیوٹی پر ہسپتال پہنچا، مجھے بتایا گیا کہ میرے بعد بادشاہ سلامت علاج کے سلسلے میں داخل ہوئے تھے اور حسب روایت جاتے ہوئے سب کو ایک مہینے کی تنخواہ کے برابر بونس عطا کر گئے ہیں ،جو اس معمولی سی رقم سے کئی گنا زیادہ تھا، جو ان نوسربازوں کے ہاتھوں ضائع ہو گئی تھی۔ واقعی اللہ بہت بڑا ہے۔میرا ہمیشہ اس بات پر ایمان رہا ہے کہ اگر آپ ایمانداری سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، تو اگلے چند روز میں غیر متوقع طور پر اس سے بہت زیادہ رقم کہیں نہ کہیں سے خود آپ کے پاس چل کر آ جاتی ہے۔ (محمدسعید جاوید کی خود نوشت ’’ اچھی گزر گئی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭