احمد عقیل روبی
’’مجھے افسوس کے ساتھ اقرار کرنا پڑرہا ہے کہ میں نے زندگی میں جو منصوبہ بھی بنایا نا کام ہوا۔ میں زندگی میں کچھ کرنا چاہتا تھا مگر نہ کر سکا۔ آخر میں نے سمندر کا رُخ کیا اور جہاز پر نوکری کر لی۔‘‘ میلول کے اس اعتراف میں اس کی زندگی کی ساری تفصیل چھپی ہوئی ہے۔ 1819ء میں وہ ایلن میلول کے گھر پیدا ہوا، جو فرانس سے امریکہ خشک میوہ جات درآمد کرتا تھا۔ البانے (Albany) میں کاروبار اکھڑا تو آٹھ بچوں اور بیوی سمیت نیویارک چلا آیا۔ نیویارک میں حالات مزید بگڑ گئے۔ کاروبار تباہ ہو گیا۔ دمڑی دمڑی کو محتاج ہو گیا اور اسی حال میں مر گیا۔ خاندان واپس البانے چلا گیا۔ میلول سکول میں پڑھتا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں سکول چھوڑنا پڑا۔ نیویارک کے ایک بینک میں کلرک ہو گیا۔ بھائی کے سٹور پر کام کیا۔ پھر اپنے چچا کے فارم ہائوس پرکھیتی باڑی کی۔ ایک سکول میں کچھ عرصہ پڑھایا جو کچھ کیا، اس میں ناکامی ہوئی۔ گھر والوں نے اسے ناکارہ، سست اور کام چور ہونے کا طعنہ دیا۔ گھر اس کیلئے عذاب بن گیا۔ اس کے بھائی کا ایک دوست نیویارک میں رہتاتھا۔ بھائی نے میلول کو نیویارک بھیج دیا۔ ہرمن میلول نیویارک پہنچا تو اس کی پینٹ پر بے شمار پیوند لگے تھے۔ اس نے ایک شکاری کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور اس کی جیب خالی تھی۔ بھائی کے دوست کے ہاں اس نے رات گزاری۔ صبح ہوئی تو بھائی کا دوست اسے ایک جہاز کے دفتر لے گیا۔ جہاز لیور پول (Liver Pool) جا رہا تھا۔ ہرمن میلول کو اس جہاز پر نوکری مل گئی۔ تنخواہ 3ڈالر ماہانہ تھی اور جہاز پر اسے ’’کیبن بوائے‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ سمندر کو ہرمن میلول اسقدر اچھا لگا کہ برسوں تک اس کا ہاتھ پکڑے رکھا۔ سمندر نے اسے سوائے تجربات اور مشاہدات کے کچھ نہ دیا۔ یہی تجربات اورمشاہدات اس کی کتابوں کے موضوعات بن گئے۔ اس کا بائیو گرافر Raymond Weaverکہتا ہے کہ اس ساری بھاگ دوڑ میں وہ جہاز کے مستول کے پاس کھڑے ہو کر بھی شیکسپیئر، ملٹن، بائرن اور کولرج کی کتابیں پڑھتا رہا اور انسانوں کے مطالعے میں مصروف رہا۔ میلول کا شاہکار ناول موبی ڈِک (Moby Dick) کپتان آہاب(Ahab) کے انتقام کی کہانی ہے۔ آہاب کا کاروبار یا مشغلہ وہیل مچھلیوں کو مارنا ہے۔ وہ یہ کام ایک عرصے سے کررہا ہے۔ ایک بار ایک خطرناک مچھلی موبی ڈِک سے اس کا آمنا سامنا ہوا۔ موبی ڈِک باوجود آہاب کی جرأت اور ہمت کے آہاب کے قابو نہ آئی بلکہ آہاب کی ایک ٹانگ اس کے جبڑے میں پھنس گئی ‘اب آہاب اپنی مصنوعی ٹانگ کے ساتھ موبی ڈِک کو سمندر میں تلاش کرتا پھر رہا ہے تا کہ اس سے اپنا انتقام لے سکے۔ وہیل مچھلی کے جبڑے سے بنی ٹانگ والا کپتان آہاب ایک بہادر آدمی ہے۔ اس کے جہاز کا نام ’’پیکاڈ‘‘ ہے جس پر اس نے تجربہ کار ملاحوں کا ایک ہجوم اکھٹا کر لیا ہے۔ ان کا اہم ترین کام یہ ہے کہ وہ سمندری وہیل مچھلیوں پر نظر رکھیں جو سب سے پہلے سفید وہیل مچھلی موبی ڈِک کی نشان دہی کرے گا‘ اسے 16ڈالر کا سونے کا سکہ انعام میں دیا جائے گا جو آہاب نے جہاز کے مستول کے ساتھ چپکا دیا ہے۔ ’’پیکاڈ‘‘ جہاز کے اس عملے میں ’’اسماعیل‘‘ ، ’’سٹاربوک‘‘ ، ’’سٹاب‘‘، نیزہ باز’’تاشی ٹیگو‘‘، حبشی ’’کوگیک‘‘ اور ’’فلاسک‘‘ جیسے ماہر اور تجربہ کار ملاح ہیں۔ یہ سب کپتان آہاب کے اندر جلتی انتقام کی آگ بجھانے کیلئے جہاز پر ملازم ہیں۔ آہاب کو موبی ڈِک کے بچ نکلنے اور اپنی ٹانگ کے ضائع ہونے کا بہت دکھ ہے، یہ دکھ انتقام بن کر اسے دن را ت پریشان اور بے چین کر رہا ہے، اس بے چینی کا علاج موبی ڈِک کی موت ہے۔ کیپٹن آہاب اپنے عملے کو وہیل مچھلیوں کے بارے میں ایک سیر حاصل لیکچر دیتا ہے۔ موبی ڈِک کی عادات اور اس کے ڈیل ڈول کے بارے میں بتلاتا ہے اور نشانی یہ بتلاتا ہے کہ اس کے جسم میں مختلف شکاریوں کے نیزے پیوست ہوں گے۔ وہ بڑی چالاکی سے شکاریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے اور پھر اس سے بچنے کی ترکیبیں بتلاتا ہے۔ اپنے عملے کو پوری طرح باخبر کر کے وہ سمندری سفر پر روانہ ہوتا ہے۔سمندری سفر میں کیپٹن آہاب عقابی نظروں سے موبی ڈِک کو تلاش کرتا ہے۔ کچھ روز سمندر میں سفر کے بعد آہاب اچانک دیکھتا ہے کہ سمندر میں فوارے چھوٹ رہے ہیں اور وہ چلا کر اپنے عملے سے کہتا ہے ’’یہی ہے موبی ڈِک! اپنے نیزے سنبھالو اور حملے کیلئے تیارہو جائو۔‘‘ چار کشتیاں جہاز سے سمندر میں اتاری جاتی ہیں اور ملاح نیزے لے کر موبی ڈِک پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن موبی ڈِک پھرتی سے جوابی حملہ کرتی ہے اور ان کے نیزوں کو توڑ دیتی ہے اور خود غائب ہو جاتی ہے۔ اسی دوران دوسری وہیل مچھلیاں ان پر حملہ کرتی ہیں۔ ایک وہیل مچھلی کو ملاح مارتے ہیں۔ اس حملے میں ٹیگو کا پائوں ایک مردہ وہیل مچھلی کے جبڑے میں پھنس جاتا ہے۔ کیوکیک بڑی جوانمردی اور بہادری سے ٹیگو کا پائوں جبڑے سے نکالتا ہے اور اس کی جان بچاتا ہے۔ جہاز کا سارا عملہ اس کی تعریف کرتا ہے اور اسے ہیرو کا خطاب دیتا ہے۔ کپتان آہاب کو موبی ڈِک کے غائب ہونے کا بہت افسوس ہے اور وہ دن رات ’’موبی ڈِک نظر کیوں نہیں آتی‘‘ کی رٹ لگاتا رہتا ہے۔ اور دن رات اس لمحے کو یاد کرتا ہے جب اس کا پائوں موبی ڈِک کے جبڑے میں پھنسا تھا اور اسے اپنی ٹانگ سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ جب جب اسے یہ گھڑی یادآتی ہے اس کے انتقام کی آگ تیز تر ہو جاتی ہے۔ آخر چند دنوں کے بعد اس کا موبی ڈِک سے سامنا ہو جاتا ہے ۔ اپنے سامنے برف کا ایک پہاڑ دیکھ کر وہ چلاتا ہے: ’’وہ دیکھو موبی ڈِک!‘‘ سب کشتیوں میں بیٹھ کر اپنے نیزے سنبھال کر موبی ڈِک کی طرف بڑھتے ہیں۔ کپتان آہاب خود بھی حملے کیلئے آگے بڑھتا ہے۔ موبی ڈِک پینتر ے بدل بدل کر ملاحوں پر حملہ کرتی ہے اور کشتیوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ جہاز کو نقصان پہنچاتی ہے اور پھر غائب ہو جاتی ہے۔ آہاب کا انتقام شدید ہو جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے اگر موبی ڈِک نہیںمرتی تو ہمیں مرجانا چاہیے اور اعلان کرتا ہے: ’’جو بھی موبی ڈِک کو مارے گا میں سونے کے دس گنا سکے ملاحوں میں تقسیم کروں گا۔‘‘ دوسرے دن موبی ڈِک پھر آتی ہے۔ ملاح اس پر حملہ آور ہوتے ہیں لیکن ان کے نیزے آپس میں ٹکرا کر ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کی کشتیاں سمندر میں ڈوب جاتی ہیں۔ ملاح زخمی ہوتے ہیں، موبی ڈِک کے حملے سے ان کے ہاتھ پائوں زخمی ہو جاتے ہیں۔ ملاح تیر کر جہاز پر واپس چلے جاتے ہیں۔ دو دن بعدموبی ڈِک پھرآتی ہے ،ملاح اس پر حملہ کرتے ہیں۔ سارا دن موبی ڈِک ان سے آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے۔ رات کے وقت ملاح لالٹین لے کر موبی ڈِک کو تلاش کرتے ہیں لیکن موبی ڈِک ان کے ہاتھ نہیں آتی۔ دوسرے دن بہت سی وہیل مچھلیاں پیکاڈ جہاز کا پیچھا کرتی ہیں۔ ملاح ان پر حملہ آور ہوتے ہیں اور پھر اچانک ان میں موبی ڈِک ظاہر ہوتی ہے، اس پر نیزوں سے حملہ کیا جاتا ہے۔ کپتان بڑی بہادری سے اس پر حملہ کرتاہے اور ایک نیزہ اس کے جسم میں اتار دیتا ہے۔ موبی ڈِک کپتان کی کشتی کو دھکیل کر سمندر میں لے جاتی ہے اور پھر وہ اپنے بڑے دشمن پیکاڈ کی طرف بڑھتی ہے اور اس پر حملہ کرتی ہے۔ کپتان آہاب دوسرا نیزہ بھی موبی ڈِک کے جسم میں گھونپ دیتا ہے۔ موبی ڈِک غصے میں آکر کشتیوں کو باری باری سمندر کی نذر کرتی ہے۔ ملاح سمندر میں ڈوبتے ہیں، موبی ڈِک پھر جہاز کے پیندے میں سوراخ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ جہاز میں پانی بھر جاتا ہے اور جہاز سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ کپتان آہاب انتقام کی حسرت دل میں لے کر اپنے ساتھیوں سمیت لقمۂ اجل ہو جاتا ہے۔ صرف ایک ملاح اسماعیل زندہ رہتا ہے جو یہ ساری داستان سناتا ہے۔ موبی ڈِک جہاز اور ملاحوں کو تباہ کرکے سمندر میں فاتحانہ انداز میں غائب ہو جاتی ہے۔ اسماعیل اس کہانی کا آغاز کرتا ہے اور ساری کہانی اسی کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ کپتان آہاب موبی ڈِک سے انتقام لینے کیلئے بیڈ فورڈ کے ساحل سے جو فوج لے کر سمندرکی طرف گیا تھا‘ اسماعیل اس فوج کا آخری سپاہی ہے جو میدان کا رزار سے واپس لوٹا ہے۔ ’’موبی ڈِک‘‘ نے اسے شاید اس لیے زندہ چھوڑا ہے کہ وہ یہ کہانی لوگوں تک پہنچاسکے۔ ہر من میلول اس لحاظ سے ایک بد قسمت آدمی ہے کہ اسے اپنی زندگی میں وہ مقبولیت اورشہرت حاصل نہ ہو سکی جو اسے مرنے کے بعد ملی۔ اس کی سفری یادداشتوں کولوگوں نے کچھ عرصہ یاد رکھا‘ اس کے بعد کی تحریروں کو وہ خاطر میں نہ لائے، بحیثیت شاعر اسے لوگوں نے تسلیم نہ کیا حالانکہ اس نے امریکی نظم نگاری میں طویل ترین نظم (Clarel)لکھی جو ایک طالب علم کا ارض مقدس کی طرف بحیثیت زائر سفر ہے۔ یہ1876ء میں چھپی ،اس کی صرف 350 کاپیاں بکیں۔ 1925ء میں ہر من میلول کے ایک نقاد نے نیویارک لائبریری میں اس کی ایک کاپی دیکھی۔ اس کتاب کے صفحات اب تک جڑے ہوئے تھے۔ اسے کسی نے اپنے نام جاری تک نہیں کرایا تھا۔ بقول نقاد(Lewis Mumford) "It had sat there unread for 50 Years".