مکرمی و محترمی! آپ کا خط ملا۔ آپ لکھتے ہیں کہ آپ ایک ’’خاص نمبر‘‘ نکال رہے ہیں اور آپ کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ اسے میرے مضمون کے بغیر کیسے نکال سکتے ہیں؟ محترمی! یہ تو سراسر جھوٹ ہے۔ متعدد رسائل نے زمانہ، ماضی اور حال میں خاص نمبر نکالے ہیں جن میںمیرا کوئی مضمون نہیں تھا۔ دراصل اگر وہ میرے مضمون کا انتظار کرتے تو شاید حشر تک خاص نمبر نہ نکال سکتے۔ آپ پو چھتے ہیں کہ میں اب مضامین کیوں نہیں لکھتا؟ مکرمی و محترمی! آپ ہی فرمائیے کہ میں مضمون کیوں لکھوں۔ اگر خدا لگتی کہتا ہوں تو حکومت کیمونسٹ سمجھ کر جیل میں ٹھونس دیتی ہے۔ اگر حکومت کی مدح سرائی کرتا ہوں تو ترقی پسند ادیب کان سے پکڑ کر ’’مجلس‘‘ سے باہر نکال دیتے ہیں۔ آگے کنواں پیچھے کھائی والا معاملہ ہے… محترمی! آپ ہی کہئے کہ یہ آپ کا سادہ دل بندہ اب جائے تو کہاں جائے۔ آپ اپنے رسالے کیلئے چند مشورے چاہتے ہیں۔ میرا پہلا اور آخری مشورہ یہ ہے کہ رسالہ بند کر دیجئے۔ حکومت اور قوم کا جو مزاج اس وقت ہے، اس کے پیش نظر آپ کو خواہ مخواہ مصیبت مول لینے کے اصول سے (جسے کئی لوگ آبیل مجھے مار بھی کہتے ہیں) احتراز فرمانا چاہئے… آج کل میں قومی راہنمائوں کے سوانح حیات مرتب کر رہا ہوں۔ بظاہر یہ آسان لیکن دراصل نہایت مشکل شغل ہے۔ اس کو ہی لیجیے کہ مجھے ہر قومی راہنما کو شریف النسل، فرشتہ سیرت اور ولی اللہ ثابت کرنا ہوتا ہے اور بعض اوقات واقعات کو کافی مسخ کرنے کے بعد بھی یہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ دوسرا ہمارے قومی راہنمائوں کی زندگیاں اتنی غیر دلچسپ واقع ہوتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ جیل جانے، چرخہ کاتنے یا اشتعال انگیز نعرے ایجاد کرنے کے علاوہ انہوں نے کوئی بات کی ہی نہیں۔ اس لیے زیب داستان کیلئے متعدد قصے گھڑنے پڑتے ہیں…ان مشکلات کے باوجود میں نہایت صبر سے اپنے فرض کی تکمیل کر رہا ہوں کیونکہ میں جانتاہوں کہ کتاب کے شائع ہونے کے بعد فوراً مجھ کسی نہ کسی غیر ملک میں سفیر بنا کر بھیج دیا جائے گا۔ میرا آپ کو بھی مخلصانہ مشورہ ہے کہ ’’خاص نمبر‘‘ نکالنے کی بجائے کسی قومی راہنما پر ایک آدھ کتاب لکھ ڈالئے۔ اگر اگلے انتخابات میں وہ کامیاب ہو گیا تو آپ کی پانچوں گھی میں ہیں۔ سفیر نہیں تو کم از کم محکمۂ اطلاعات کے ڈائریکٹر آپ ضرور بنا دئیے جائیں گے۔ بصورت دیگر اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو چاہے خاص نہیں ’’خاص الخاص‘‘ نمبر نکالئے۔ آپ محض ایڈیٹر ہی رہیں گے اور خدانخواستہ آپ گرفتار کر لیے گئے تو شاید ایڈیٹر بھی نہ رہیں۔ (مخلص)