انٹرنیٹ پر معلومات کی تلاش اربوں ڈالرکی صنعت ہے۔ اس میدان میں گوگل سب سے بڑی کمپنی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق آن لائن سرچ کرنے والے نصف سے زیادہ لوگ گوگل کا سہارا لیتے ہیں۔ ان میں عام لوگوں کے علاوہ دہشت گرد بھی شامل ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی بیشتر وارداتوں میں غیرارادی طور پر گوگل بھی معاونت کرتا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور دوسرے ممالک میں پکڑے گئے دہشت گردوں سے تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنی وارداتوں کے لیے گوگل سرچ سے بھی استفادہ کیا تھا۔ تسلسل سے ایسے واقعات سامنے آنے کے بعد گوگل نے دہشت گردوں کا راستہ روکنے کی تیاری کرلی ہے۔ گوگل نے اپنے سسٹم میں ایسی تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی بدولت دہشت گردوں کو اس پر مطلوبہ معلومات نہیں مل سکیں گی۔ اگر کوئی شخص دہشت گردی جیسے منفی مقاصد کے لیے گوگل پر کچھ سرچ کرے گا تو جواب میں غلط نتائج ظاہر ہوں گے۔گوگل انتظامیہ کے مطابق وہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کوششیں کررہی ہے۔ اس مقصد کے لیے رواں سال دو آزمائشی پروگرام شروع کیے جائیں گے۔ ایک پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ جب سرچ انجن میں دہشت گردی سے جڑی مختلف اصطلاحات اور الفاظ درج کیے جائیں تو غیر متعلق نتائج ظاہر ہوں۔ دوسرا پروگرام یہ اصطلاحات اور الفاظ تلاش کرنے والوں کی شناخت سے متعلق ہے۔ دہشت گردی سے جڑی اصطلاحات و الفاظ عام نتائج کے بجائے سپانسرڈ لنکس کی صورت میں گوگل سرچ میں سب سے اوپر ظاہر ہوں گے۔فی الوقت اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے گوگل کے یہ اقدامات کس قدر مفید ثابت ہوں گے؟ البتہ دہشت گردی سے جڑی ہر سرچ کے جواب میں غلط نتائج ظاہر ہونا بھی مشکل ہوگا۔ اس کا اندازہ گوگل انتظامیہ کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ یوٹیوب پر ہر منٹ میں 300 گھنٹے دورانیے کی ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ مختصر وقت میں ڈیٹا کی اتنی بڑی مقدار کو فلٹر کرنا کمپنی کے لیے ممکن نہیں ہے۔ (نیٹ نیوز)