اکبر حمیدی
یہ دنیا ایک بڑا ریلوے اسٹیشن ہے جہاں ہم سب انتظار گاہوں میں بیٹھے اپنی اپنی گاڑی کے منتظر ہیں۔ آج مجھے اندازہو ا کہ انتظار گاہ کتنی ضروری اور کتنی اہم جگہ ہے جہاں میں انتظار کی مدت صبر و سکون کے ساتھ گزاررہا ہوں۔ ایک لمحے کیلئے میں سوچتا ہوں اگر انتظار گاہ نہ ہوتی تو اتنے بڑے ریلوے اسٹیشن پر میں کہاں اور کب تک مارا مارا پھرتا؟ ان چاہے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد سے ملاقات ہوتی کہ اب تک خود سے جدا ہو چکا ہوتا۔ تب اگر میری گاڑی آبھی جاتی اور میں گاڑی پر سوار ہو بھی جاتا تو شاید سوار ہونے والا ’’میں‘‘ وہ نہ ہوتا جو صبح سویرے زرق برق لباس پہنے جذبوں اور اُمنگوں بھرے دل کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پہنچا تھا! انتظار گاہ نے نہ صرف انتظار کی اذیت کو قابلِ برداشت بنایا ہے بلکہ اتنے بڑے ریلوے اسٹیشن کے شور شرابے سے مجھے پناہ بھی دی ہے۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ انتظار گاہ کسی پر شور سمندر کے درمیان ایک چھوٹا سا پُر امن جزیرہ ہے جہاں سے جب چاہیں ہم سمندر کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ اور جب چاہیں گوشۂ عافیت میں اپنے آپ کو احساسِ تحفظ بھی عطا کر سکتے ہیں۔ صبح جب میں ریلوے اسٹیشن پہنچا میری گاڑی آنے میں نصف گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے فلیٹ فارم سے ایک ادبی رسالہ، افسانوں کی ایک کتاب اور سگریٹوں کا پیکٹ خریدا، پلیٹ فارم کی ایک سمت سے دوسری سمت تک تماشائے اہلِ کرم کیا۔ اپنے شوقِ سفر کو خوبصورت رنگوں، خوش کن آوازوں اور نو تراشیدہ گل پیراہنوں کے احساسِ رفاقت سے تازہ تر کیا۔ تب پلیٹ فارم کے مائیکرو فون سے پیغام موصول ہوا کہ میری گاڑی ایک گھنٹہ تاخیر سے آرہی ہے۔ چنانچہ میں بغیر کوئی دقت ضائع کیے انتظار گاہ میں چلا آیا۔انتظار گاہ میں اگر زندگی کی بنیادی ضروریات اور تھوڑی سی آسائشیں میسر ہوں تو وقت بہتر طور پر کٹ سکتا ہے۔ نشست اگر ذرا آرام دہ ہو اور قدرے کشادہ بھی جس میں نیم دراز سا ہوا جا سکے تو آدمی بے چینی سے پہلو بدلنے کی اذیت سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اگر نشست کسی ایسی کھڑکی کے ساتھ ہو جو پلیٹ فارم کی طرف کھلتی ہو تو پھر کیا ہی کہنے!خوش قسمتی سے انتظار گاہ میں مجھے جو نشست ملی ہے، اس میں یہ سب خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ میں محنت کی عظمت کا قائل ضرور ہوں مگر میں نے دیکھا ہے جو کچھ ہمیں خوش قسمتی سے مل جاتا ہے وہ محنت سے ہر گز نہیں ملتا۔ اس نشست کی بدولت میں بیک وقت پلیٹ فارم کے ہجوم میں بھی ہوں اور انتظار گاہ کی عافیت میں بھی!انتظار گاہ کی اپنی ایک دنیا ہے جو ریلوے اسٹیشن کی دنیا سے بالکل الگ تھلک ہے۔ یہاں خاموشی ہے، سکون ہے، ٹھہرائو ہے، یک سوئی ہے۔ انتظار کے نتیجے میں اضطراب کی کیفیت تحت الشعور کے راستے دل میں ضرور اُتر آتی ہے مگر انتظار گاہ کی ٹھہری ہوئی فضا جیسے اسے تھپکیاں دے کر سلا بھی دیتی ہے۔ ویسے بھی عالمِ محسوس اور عالم شعور کے درمیان موٹے شیشے کی ایک مضبوط کھڑکی ہے جسے اگر مہارت کے ساتھ بند کر دیا جائے تو ہم شیشے کے پیچھے انگڑائیاں لیتی کیفیات کا مشاہدہ تو کر لیتے ہیں مگر ان کی پر شور اذیتوں سے محفوظ رہتے ہیں بشرطیکہ ہم مشاہدہ کو مشاہدہ تک محدود رکھنے پر قادر ہوں اور اسے نفسیاتی وار دات بننے سے روک سکتے ہوں۔ بالکل اس طرح جیسے میں نے اپنی نشست کے قریب پلیٹ فارم کے ہنگاموں کی طرف کھلنے والی موٹے شیشے کی کھڑکی مضبوطی سے بند کر دی ہے۔ اب میں جب چاہوں اس کے شیشوں میں سے پلیٹ فارم کی صورتِ حال سے لطف اندوز ہو سکتا ہوں اور جب چاہوں اپنی گردن گھُما کر اس کی تصویروں کو انتظار گاہ میں داخل ہونے سے روک سکتا ہوں۔ یہ کھڑکی میرے لیے ایک رنگین ٹی وی ہے۔ میں چاہوں تو اس کے دونوں پٹ کھول کر آواز اور تصویر دونوں سے دل بہلائوں۔ چاہوں تو پٹ بھیڑ کر آواز بند کردوں اور محض رنگ دار تصویروں سے لطف اٹھائوں… اور جب چاہوں گردن کو ذرا سی جنبش دے کر ٹی وی بند کردوں۔اس انتظار گاہ میں میرے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ہیں مگر سب ایک دوسرے کے وجود سے بے خبر۔ ایسا لگتا ہے جیسے سب اپنی اپنی انتظار گاہوں میں اپنی اپنی فرصت کے لمحات اپنے اپنے طور پر بہتر انداز میں بسر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ بعض حضرات کی مصروفیات اور انہماک دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے انتظار گاہ کو گھر بنا لیا ہے۔ اطمینان سے بیٹھے شیو بنا رہے ہیں۔ ایک صاحب نے کپڑے دھو کر پنکھے کے نیچے سوکھنے کیلئے ڈال رکھے ہیں اور خود ایک بنچ پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے استراحت فرما رہے ہیں۔ ایک صاحب مطالعہ میں مصروف ہیں۔ ایک صاحب نے خضاب لگا رکھا ہے اور اب تولیہ شانوں پر رکھے غسل خانے میں جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ایک صاحب جوتوں کو چمکا رہے ہیں۔ غرض سب کو کسی نہ کسی گاڑی کا انتظار ہے مگر کسی نے بھی گاڑی کو اعصاب پر سوار نہیں ہونے دیا۔ میں نے کھڑکی کے شیشو ںمیں سے دیکھا، ایک گاڑی بغیر آواز پیدا کیے آہستگی سے پلیٹ فارم پر آکر رکی ہے۔ لوگ سوٹ کیس، اٹیچی کیس، بریف کیس، بستر، بیگ اور گٹھڑیاں اٹھائے گاڑی پر پل پڑے ہیں… پتہ نہیں کتنے صبر آزما انتظار کے بعد ان کی گاڑی آئی ہے۔ پورا منظر عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب کی تصویر بنا ہوا ہے۔ استقبال کرنے والوں اور الوداع کہنے والوں کی کیفیات دیکھنے کے قابل ہیں۔ سب لوگ آنے والے اور جانے والے عزیزوں سے اپنے اپنے انداز میں بڑی گرم جوشی سے مل رہے ہیں۔پلیٹ فارم ایک ایسی ہی جگہ ہے جہاں ہم ہنس ہنس کر ملتے ہیں اور رو رو کر جُدا ہوتے ہیں۔ آنے والوں کیلئے پھولوں کے ہار ہیں اور جانے والوں کیلئے آنسوئوں کی مالا۔