SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: پیکر تراش صادق علی شہزاد کی کہانی

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      پیکر تراش صادق علی شہزاد کی کہانی



      چوبیس اگست 1950ء کو ملتان کے علاقے بوہڑ گیٹ میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا، جس کے آباء واجداد تو زرگرتھے ،لیکن اس بچے نے زرگری کی بجائے مٹی کو سونابنانے کاعمل شر وع کردیا۔صادق علی شہزادکو بچپن ہی سے مصوری کاشوق تھا ۔پہلے انہوںنے زمین پر اور کاغذ پر تصویریں بنائیں ،پھر رفتہ رفتہ مٹی کو گوندھ کر مجسمے بنانا شروع کردیئے۔مجسمہ سازی کوئی آسان کام نہیں،لیکن صادق شہزاد نے اسی فن کو اپنا اوڑھنابچھونا بنالیا۔1965ء میں پرائیویٹ طورپر میٹرک کا امتحان پاس کیا،پھر سول لائنز کالج میں داخلہ لیا، لیکن اصل جنون مجسمہ سازی تھا۔انہوں نے سینکڑوں مجسمے بنائے اورعمربھر اسی فن کے ساتھ وابستہ رہے۔پلاسٹر آف پیرس سے بنے ہوئے اُن کے مجسمے آرٹ کا بہترین نمونہ ہیں۔ابتداء انہوںنے پورٹریٹ مجسموں سے کی ۔مختلف شخصیات کے مجسمے بنائے۔جیسے زرگر سونے پر نقش ابھارتا ہے، بالکل اسی طرح صادق شہزاد نے بھی مٹی سے شکلیں ابھارنا شروع کردیں۔خواجہ غلام فرید ،وارث شاہ اور دیگر صوفی شعراء کے مجسمے ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔جیتی جاگتی تصویریں کہ جیسے وہ ابھی ہم کلام ہوجائیں گی۔انہوںنے صرف شخصیات ہی نہیں، ثقافت کوبھی مجسموں کاموضوع بنایااورمجسمہ سازی کی اس روایت کے بانی بھی وہی تھے ۔ صادق علی شہزادنے وارث شاہ کی ہیر اور بانسری بجاتے رانجھے کے مجسمے بنائے،دیہات کے منظرنامے کو نقش کیا،چرخہ کاتتی عورت اور ایسے بے شمار مجسمے کہ جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔وہ مجسمہ سازی میں پلاسٹر آف پیرس کااستعمال کرتے تھے اور ان مجسموں کے ذریعے لوگوں تک کوئی نہ کوئی پیغام بھی پہنچاتے تھے۔مصوروں نے تصویروں کے ذریعے تو اپنا مدعا بارہا بیان کیا ،لیکن مجسموں کو اظہار کاایسا ذریعہ صرف صادق شہزادنے ہی بنایا۔بیرون بوہڑ گیٹ ایک چھوٹی سی دکان اوراس کے پیچھے ایک کمرے پر مشتمل رہائش گاہ، ان کے فن کامرکز رہی۔وہ دن بھر مجسمے تراشتے تھے اور پھر انہیں اپنی دکان کے ایک کونے میں سجا دیتے تھے۔قائد اعظم ،علامہ اقبال سمیت کئی پاکستانی مشاہیر کے مجسمے ان کی آرٹ گیلری میں موجودتھے۔ایک جانب فیض احمد فیض اور احمد فراز کے مجسمے کچھ اس انداز میں اپنی جانب متوجہ کرتے کہ جیسے وہ ابھی ہمیں شعر سنانے لگیں گے۔ہیروارث شاہ کی طرح انہوںنے غالب ،اقبال اور احمد فراز کے بہت سے اشعار کو بھی مجسموں کے ذریعے ابھارنے کی کوشش کی ۔دیہی مناظر ،سیاسی موضوعات ،ادبی منظرنگاری اور غربت و افلاس کی چکی میں پسنے والے لوگ یہ سب ہمیں ان کے مجسموں میں دکھائی دیئے۔ ہرفنکار کی طرح صادق شہزادکے مجسمے بھی ان کے جمالیاتی ذوق کے آئینہ دار تھے۔انہوں نے بہت سے مجسموں کے ذریعے محبوب کے خدوخال ابھارنے کی کوشش کی ۔خدوخال ہی نہیں کئی مجسموں میں تو محبوب کا پورا پیکر موجودہے اورشاید اسی شان کے ساتھ مجسم کیاگیاہے ،جس شان کے ساتھ وہ مجسمہ ساز کے ذہن میں موجودتھا۔ 2007ء میں اس وقت کے گورنر خالد مقبول نے الحمرا، لاہور میں صادق شہزادکے مجسموں کی نمائش کا اہتمام کیا۔محمد علی واسطی نے ملتان آرٹس کونسل میں اُن کے مجسموں پر مشتمل آرٹ گیلری قائم کی، جو انہی کے نام سے موسوم ہے۔وہ ایک ایسے فن کی آبیاری کرتے رہے ،جس کا مستقبل بظاہر تاریک دکھائی دیتا ہے۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی مجسمہ سازی کے فروغ میں رکاوٹ بنی، لیکن صادق علی شہزادناامید نہیںتھے۔وہ مجسموں کے ذریعے اپنے خطے کی تاریخ ایک نئے ڈھب سے تشکیل دیتے رہے۔زمانے کی سردمہری سے مایوس ہو کر ایک بار صادق شہزادنے کہا تھا کہ ان مجسموں کو میرے ساتھ میری قبر میں ہی دفن کردینا،پھرایک روز جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا یہ فن آپ کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا ،تو صادق شہزادنے کہا :نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا!کیاکبھی محبتیں بھی ختم ہوئی ہیں؟ یہ تو محبت کاسفر ہے ،جو جاری رہے گا۔میرے بعد کوئی اورآئے گا، جو مٹی سے شکلیں ابھارے گااوروہ مناظر تشکیل دے گا ،جو اس کے ذہن میں موجود ہیں۔ ممکن ہے، آنے والے دور کافنکار پیدا بھی ہوچکا ہو، لیکن ابھی اسے تلاش کرنے والا کوئی نہیں۔اس فن کی آبیاری کرنے والا کوئی نہیں۔صادق شہزادصرف مجسمہ ساز ہی نہیں تھے ،وہ مجسم محبت تھے۔ایک جنونی جواپنے فن سے محبت کرتاتھا ،جس نے اپناپورا جیون آرٹ کے لیے وقف کررکھاتھا۔وہ کسی اعزاز کی پروا کیے بغیر اپنے کام میں مگن رہتاتھا۔ مجسمہ سازی میں جو اختراع صادق شہزادنے پیدا کی، وہ ہمیں کہیں اوردکھائی نہیں دیتی۔ملتان میں ہی نہیں وہ پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کے واحد فنکارتھے۔انتہائی نفیس انسان کہ جوعشق کواپنا اوڑھنا بچھونا کہتاتھا ،جودھیمے لہجے میں بات کرتا تھا اور معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں پر اپنے انداز میں احتجاج کرتا تھا۔ صادق شہزادکو ہم نے ہمیشہ اس چھوٹی سی دکان میں دیکھا، جہاں وہ دن بھر مجسمہ سازی میں مصروف رہتے تھے۔یہیں ایک بار فیض احمد فیض انہیں ملنے کے لیے آئے تھے۔یہیں دنیا بھر سے آرٹ کے طالب علم ان سے ملاقات کے لیے آتے ۔وہ عاجزی ،انکساری اور محبت کاپیکرتھے۔ایک بار فنکاروں کی ایک محفل میں کسی نے کہاکہ حکومت کو ہمارے فن پارے خریدنے کے لیے کوئی اہتمام کرنا چاہیے تاکہ ہم آسودگی کی زندگی گزارسکیں،ہماری مالی مسائل کم ہوسکیں۔صادق شہزادسے جب اس بارے میں رائے لی گئی، تو وہ مسکرائے ،انہوں نے کہاکہ فن پارہ فروخت کرنا فن کی توہین ہے،فنکار کی توہین ہے ۔ میں کئی راتیں لگا کرجو مجسمہ تیارکرتاہوں،کوئی اس کی بھلا کتنی قیمت دے سکتا ہے؟یہ محبتوں کے سودے ہیںاور محبتوں کے سودے میں صرف خسارہ ہی ہوتا ہے اوریہی خسارہ دراصل منافع ہوتاہے۔صادق شہزاد کی گفتگو میں کچھ عرصہ سے احتجاج دکھائی دینے لگا تھا۔ دھیمے لہجے میں بات کرنے والایہ فنکار اب کبھی کبھاربہت جذباتی ہوجاتاتھااورایسا کیوں نہ ہوتا۔صادق شہزاداظہارتونہیں کرتے تھے، لیکن رائیگانی اور محرومی کااحساس وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا جارہاتھا۔ان کاقصور تو بس یہی تھا کہ وہ ملتان میںپیدا ہوئے۔لاہور ،کراچی ،اسلام آبادجیسے مرکزی شہر میں مقیم ہوتے، تو ان کے فن کی پذیرائی بھی زیادہ ہوتی۔ شاید ان کی زندگی میں کوئی آسودگی بھی آتی۔شاید انہیں کسی اعزاز کا حق داربھی قراردیا جاتا، لیکن ملتان کی مٹی سے جنم لینے والایہ فنکار اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کی کوشش میں اسی مٹی کاحصہ بن گیا۔ 9فروری 2016ء کوجب اس کاجنازہ رخصت ہوا، تو مجھے باربار اس کاوہ جملہ یادآنے لگا، جو اس نے کئی برس پہلے کہا تھا ’’میرے مجسمے میرے ساتھ ہی دفن کردینا ،اس فن کی یہاں کوئی قدرنہیں‘‘۔مجسمے توان کے ساتھ دفن نہیں کیے گئے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ صادق شہزاد کے ساتھ ملتان میں مجسمہ سازی کا فن ضرور دفن ہوگیاکہ اس شہر میں اپنی نوعیت کے وہ واحد فنکارتھا۔ان کے بعداس فن سے وابستہ کوئی بھی شخص تو باقی نہیں رہا۔ممکن ہے، آنے والے دور کا کوئی فنکار پیدا بھی ہوچکا ہو،لیکن ابھی اسے تلاش کرنے والا کوئی نہیں۔محبت کاسفر جاری رہے گا، لیکن صادق علی شہزادکاسفر توختم ہوگیا۔ ٭…٭…٭



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      CaLmInG MeLoDy (02-17-2016)

    3. #2
      The thing women have yet to learn is nobody gives you power. You just take it. Admin CaLmInG MeLoDy's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      6,213
      Threads
      2245
      Thanks
      931
      Thanked 1,367 Times in 868 Posts
      Mentioned
      1038 Post(s)
      Tagged
      7966 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: پیکر تراش صادق علی شہزاد کی کہانی

      hmm...bohot khob sharing hai habib bhai.






    4. The Following User Says Thank You to CaLmInG MeLoDy For This Useful Post:

      intelligent086 (02-19-2016)

    5. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: پیکر تراش صادق علی شہزاد کی کہانی

      Thanks..........


      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •