Moona (02-15-2016)
ہمارے روایتی پکوان سادہ ،مگر ذائقے سے بھرپور رہے ہیں چونکہ دیہاتی ماحول میں گائے بھینسوں کا دودھ اور اس کی ذیلی پیداوار گھی اور مکھن کی صورت میں عام تھی اس لیے گھروں میں سالن پکانے کے لیے دیسی گھی استعمال ہوتا تھا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا اوردیہاتوں نے شہروں کا روپ دھارنا شروع کیا تو تن آسانی اور پیداواری قلت کی وجہ سے دیسی گھی کی جگہ بناسپتی گھی نے لے لی اور مزید وقت گزرنے کے ساتھ اور صحت کے مسائل سے آگہی اور تعلیم کے نسبتاً عام ہونے کے ساتھ خوردنی تیل کا استعمال بھی شروع ہو گیا۔آج بھی پکانے کے لیے دیسی گھی ،بناسپتی گھی اور خوردنی تیل کا ایک ساتھ استعمال ہور ہا ہے ۔دیسی گھی کی شدید قلت اور دیہاتی زندگی میں حکمرانوں کی عدم دلچسپی ،مویشی پالنے کے جدید طریقوں سے لا علمی اور زراعت کو ترجیح نہ دینے کی پالیسی کی وجہ سے اس قلت میں اور اضافہ ہوا ۔اس لیے آج کل دیہاتوں میں بھی بناسپتی گھی زیادہ اور خوردنی تیل بہت کم استعما ل ہورہا ہے ۔ روایتی مزیدار پکوان آج کل کھانے کو تو کم کم ملتے ہیں، تاہم یہاں ان کے ذکر سے ضرور لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے : سرسوں کا ساگ، مکئی کی روٹی پر لطف اور سادہ ترین کھانا سرسوں کی نرم و گداز گندلوں سے تیارکیا ہوا سالن، جس میں مکھن کی بہتات ہوتی ہے ۔مکئی کے آٹے سے بنی روٹی کے ساتھ کھانا پنجاب کی پہچان تھا۔ آج شہروں میں تو کیا دیہاتوں میں بھی یہ کھانا عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجوہ بھی سہل انگاری اور تن آسانی ہی کہی جا سکتی ہے ۔ سرسوں کا ساگ پکانے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور پکانے میں توجہ اور محبت درکار ہوتی ہے جو شاید کم ہوتی جار ہی ہے ۔اس طرح یہ روایتی ذائقہ اب عام نہیں رہا، تا ہم ابھی بالکل ختم نہیں ہوا۔ بینگن کا بھرتا تنو رہماری تہذیبی روایت کا جزو لازم رہا ہے ۔گھروں میں تنوریاں موجود تھیں، جہاں خواتین خود روٹیاں پکاتی تھیں ۔ان کے علاوہ دیہاتوں میں تنور پیشہ کے طور پر بھی موجود تھے ۔جہاں اُجرت کے طور پر گندھا ہوا آٹا لے کر روٹیاں لگائی جاتیں، پھر وقت گزرنے کے ساتھ معاشی حالات میں بہتری کی وجہ سے پیسے دے کرتنور سے روٹیاں لگوائی جاتیں۔ انہی تنوروں میں بینگن کا بھرتا (آگ پر پکانا)تیار کیا جاتا ہے ۔ بینگن کا پکا ہوا گودا نکال کر دہی میں ملا یا جاتا ہے ۔ ہری مرچیں اور پیاز ملا کر تنور کی روٹی سے کھایا جانا والا بھرتا مزہ ہی مزہ دیتا تھا۔ یہ ڈش بہت جلد تیار ہو جاتی ہے ۔اس لیے گرمیوں میں بطور خاص پسند کی جاتی ہے۔ (غلام نبی شاکر کی کتاب ’’میراگمشدہ پنجاب‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Moona (02-15-2016)
@intelligent086 Thanks 4 informative sharing
intelligent086 (02-15-2016)
Moona (02-15-2016)
u r welcome
intelligent086 (02-16-2016)
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks