ہدایتکار نخشب میرے والد کے دوستوں میں سے تھے بلکہ بمبئی میں بابا کے چند دوست تھے ،جن میں خواجہ احمد عباس دوست نہیں بھائی تھے، دوست بھی تھے ،مگر وہ تو خاندان کے اہم لوگوں میں سے تھے۔ نخشب ایک باصلاحیت مصنف و ہدایت کار تھے۔ ان کی ایک شاہکار فلم ’’دیا اور طوفان‘‘ تھی۔ یہ فلم انڈیا اور پاکستان دونوں میں بڑی کامیاب رہی۔ نخشب پاکستان آگئے ،تو بابا بہت خوش ہوئے کہ ایک پرانا ساتھی آگیا ہے۔خواجہ احمد عباس کے بعد یہ ان کے بے تکلف دوست تھے ان کے دو چار ہی ایسے دوست تھے، جن میں ایک اداکار ڈیوڈ، نغمہ نگار راجہ مہدی علی خان اورمعروف شاعر،سٹوری رائٹر اور نغمہ نگار اختر الایمان (اس آباد خرابے میں کے مصنف)شامل تھے۔ نخشب بہت خوبصورت انسان تھے۔ درپن سے مشابہت رکھتے تھے، بڑے ذہین اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ہمارے بابا نے سوچا ہوگا کہ ایک اور ہنر مند فلم ساز اور ہدایت کار پاکستان آگیا ہے۔ باہم مل جل کر کوئی بڑا کام کریں گے، مگر ایک تو نجم نقوی صاحب کی صحت خراب ہوگئی اور پھر نخشب کی فلم ’’دیا اور طوفان‘‘ باکس آفس پر اچھا بزنس تو کر گئی، مگر وہ اس کے بعد کوئی قابل ذکر کام نہ کر سکے۔ نامعلوم اس کی کیا وجہ تھی۔ ان کے پاس سرمایہ بھی تھا اور صلاحیت بھی بے پناہ تھی، مگر وہ یہاں کامیاب نہ ہوسکے، مگر سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بابا کو نخشب کی پاکستان میں ناکامی کا بہت صدمہ تھا کیونکہ نخشب کی میرے بابا کے ساتھ بہت دوستی تھی۔ (یادوں کی اساس:برصغیر کے نامور ہدایت کار ’’نجم نقوی‘‘ کی سوانح عمری از؛مسرت حسنین نقوی ) ٭…٭…٭
Bookmarks