چیئرمین مائو کے دور میں ہمارا ایک وفد چین کے دورہ پر گیا تو حد نظر تک پھیلے ہوئے ایک کارخانے میںانسانوں اور روبوٹس کو کام کرتے دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ حیرت کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ سارا کام طاقت ور بجلی سے ہو رہا تھا۔ اس سے سارا ماحول روشن بھی تھا اور اس سے تمام مشینیں اور روبوٹ کام کر رہے تھے۔ وفد کے ارکان کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ جب بجلی بند ہوتی ہو گی تو یہاں کیا ہوتا ہو گا، وہ اپنا یہ سوال زبان پر لے آئے۔ یعنی فیکٹری کی سیر کرانے والے آفیسر سے سوال کیا۔ ’’کبھی بجلی بند ہو جائے تو آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘ ’’جی‘‘ وہ آفیسر چونکا… ‘‘ ’بجلی بند ہو جائے ؟‘‘ ’’ بجلی بند کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘’’فرض کیجئے کہ اگر کبھی …‘‘ ’’جناب! ایسی بات کیوں فرض کی جائے۔ جس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘ ’’کیا یہاں بجلی بالکل بند نہیں ہوتی؟‘‘ ’’ چند سال پہلے تین منٹ کے لئے بند ہوئی تھی۔‘‘’’پھر کیا ہوا تھا؟‘‘ ’’کچھ نہیں۔ تحقیقات ہوئیں۔ علاقے کے چیف انجینئر کو اس بریک ڈائون کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اس کو چورا ہے پر کھڑا کر کے گولی مار دی گئی۔ اس کے بعد سے اب تک پورے چین میں بجلی بند نہیں ہوئی۔ ‘‘ آفیسر نے اطمینان سے جواب دیا اور ہمارے وفد کے ارکان کے پسینے چھوٹ گئے۔ دراصل وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اگر یہی طریقہ پاکستان میں بھی اختیار کر لیا جائے تو بجلی کے محکمے میں قحط الرجال کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ شاید ہی کوئی انجینئر اپنی جان بچا سکے۔ (’’چین کا سفر نامہ دو ستوں کے درمیان ‘‘ امداد نظامی کی کتاب سے اقتباس) ٭…٭…٭
Bookmarks