Moona (02-15-2016)
دستر خوان
وزیرآغا
سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی روایت ہمارا عزیز ترین ثقافتی ورثہ تھا جس کے ساتھ ہم نے عزیزانِ مصر کا سا سلوک کیا اور اب یہ روایت اوّل تو کہیں نظر ہی نہیں آتی اور کہیں نظر آ جائے تو مارے شرمندگی کے فی الفور خود میں سمٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں شرمندہ ہونے کی قطعاً کوئی بات نہیں بلکہ میں تو کہوں گا کہ دستر خوان پر بیٹھنا ایک تہذیبی اقدام ہے جب کہ کھڑے ہو کر کھانا ایک نیم وحشی عمل ہے۔ مثلاً یہی دیکھئے کہ جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے ہیں تو دائیں بائیں یا سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے آپ کے برادرانہ مراسم فی الفور استوار ہو جاتے ہیں۔ آپ محسوس کرتے ہیں جیسے چند ساعتوں کے لیے آپ دونوں ایک دوسرے کی خوشیوں، غموں اور بوٹیوں میں شریک ہو گئے ہیں۔ چنانچہ جب آپ کے سامنے بیٹھا ہوا آپ کا کرم فرما کمال دریا دلی اور مروّت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پلیٹ کا شامی کباب آپ کی رکابی میں رکھ دیتا ہے تو جواب آں غزل کے طور پر آپ بھی اپنی پلیٹ سے مرغ کی ٹانگ نکال کر اُسے پیش کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا کھانے کے دوران لین دین کی وہ خوشگوار فضا ازخود قائم ہو جاتی ہے جو ہماری ہزار ہا برس کی تہذیبی یافت کی مظہر ہے۔ ایک لحظہ کے لیے بھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوتا کہ سامنے بیٹھا ہوا شخص آپ کا مدِ مقابل ہے اور اگر آپ نے ذرا بھی آنکھ جھپکی تو وہ آپ کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کر جائے گا۔ دسترخوان کی یہ خوبی ہے کہ اس پر بیٹھتے ہی اعتماد کی فضا بحال ہو جاتی ہے اور آپ کو اپنا شریکِ طعام حد درجہ معتبر، شریف اور نیک نام دکھائی دینے لگتا ہے۔ دوسری طرف کسی بھی بوفے ضیافت کا تصور کیجئے تو آپ کو نفسانفسی خود غرضی اور چھینا جھپٹی کی فضا کا احساس ہوگا اور ڈارون کا جہدللبقا کا نظریہ آپ کو بالکل سچا اور بر حق نظر آنے لگے گا۔ دستر خوان کی ایک اور خوبی اس کی خود کفالت ہے۔ جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ آپ کی جملہ ضروریات کو بے طلب پورا کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ سامنے دسترخوان پر ضرورت کی ہر چیز موجود ہے حتیٰ کہ اچار،چٹنی اور پانی کے علاوہ خلال تک مہیا کر دئیے گئے ہیں۔ دسترخوان پر بیٹھنے کے بعد اگر آپ کسی کو مدد کے لیے بلانے پر مجبور ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو میزبان نے حقِ میزبانی ادا نہیں کیا یا مہمان نے اپنے منصب کو نہیں پہچانا… خود کفالت دراصل ہماری ثقافت کا ایک امتیازی وصف ہے اور اس کا ہماری قناعت پسندی بلکہ تقدیر پرستی سے بھی ایک گہرا تعلق ہے۔ اپنے دیہات ہی کو لیجئے جو ہماری ثقافت کی صحیح ترین نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ اب تو خیران میں پہلی سی بات نہیں رہی ورنہ صدیوں تک انہوں نے نمک اور حملہ آور کے علاوہ شاید ہی کبھی کوئی چیز درآمد کی ہو… دلچسپ بات یہ ہے کہ کسان اپنے لیے خوراک زمین سے حاصل کرتا ہے جو اس کے جسم کی ساخت اور تعمیر میں حصہ لیتی ہے مگر پھر جب اس کا اپنا بدن زمین کا رزق بن جاتا ہے تو کچھ عرصہ کے بعد زمین اسے دوبارہ غذا میں منتقل کر کے آئندہ نسلوں کو پیش کر دیتی ہے۔ اور یہ بات انسان تک ہی محدود نہیں۔ دیہات میں تو پرندوں، حیوانوں، پودوں اور انسانوں کی نسلیں سدا ایک دوسری میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ یک جانی اور ہم مزاجی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ انہیں محسوس ہوتا ہے جیسے گائوں بجائے خود ایک دسترخوان ہے جو کھیتوں کے عین درمیان بچھا دیا گیا ہے جس پر وہ نسل در نسل بیٹھتے اور اٹھتے رہتے ہیں۔ ایک نسل جب کھانے سے فارغ ہو جاتی ہے تو دوسری نسل دسترخوان پر آ بیٹھتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ گو جانے والی نسل آنے والی نسل کے لیے غذا بن کر دستر خوان پر سج جاتی ہے مگر آنے والی نسل کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کس رغبت سے اپنے ہی بزرگوں کی ہڈیاں چبا رہی ہے۔ دسترخوان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ آپ کو زمین سے قریب کر دیتا ہے جب کہ میز کرسی پر آتے ہی آپ زمین کے لمس سے محروم ہو جاتے ہیں اور چرنے چگنے کا عمل تو آپ کو زمین سے بالکل منقطع ہی کر دیتا ہے۔ زمین ایک زندہ، دھڑکتی اور پھڑکتی ہوئی شے ہے جس کی تحویل میں ایک پُر اسرار قوت بھی ہے۔ پرانے زمانے کے لوگوں کو نہ صرف اس قوت کی موجودگی کا علم تھا بلکہ وہ قدم قدم پر اس کے لمس سے بھی آشنا ہوتے تھے۔ وہ کہتے کہ یہ قوت زیرِ سطح قوسوں، دائروں اور لکیروں کی صورت میں رواں دواں رہتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی انجانے میں بھی ان میں سے کسی لکیر کو چھو لیتا ہے تو اسے زمین کی قوت ایک برقی جھٹکے کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ تب وہ زمین کے فیوض و برکات کے حصول کے لیے ان لکیروں اور کھائیوں کی تلاش کرتے اور جس مقام پر یہ لکیریں یا کھائیاں ایک دوسری کو کاٹتی ہوئی ملتیں وہیں اپنے پگوڈے یا مندر تعمیر کرتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ مقام دراصل زمین کی پر اسرار قوت کے سر چشمے ہیں۔ مگر پھریوں ہوا کہ انسان بتدریج زمین سے منقطع ہو کر پہلے چوباروں پھر میناروں پر چڑھ گیااور زمین سے جو اس کی ماں بھی تھی اور ان داتا بھی، کٹتا اور دُور ہٹتا چلا گیا۔ دسترخوان کی خوبی یہ ہے کہ وہ انسان کو دوبارہ زمین کے سینے سے چمٹا دیتا ہے تا کہ وہ براہ راست زمین سے اس کی پر اسرار قوت کو کشید کر سکے۔ دسترخوان دراصل زمین کا لباس ہے اور دستر خوان پر بنی ہوئی قوسیں، دائرے اور لکیریں زمینی قوت کی گزر گا ہوں کے مماثل ہیں۔ چنانچہ جب آپ دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں تو اس کی غذائیت ہزار گنا بڑھ جاتی ہے جب کہ میز کرسی پر یا چل پھر کر کھانا کھائیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس کھانے میں وہ برقی رو موجود نہیں جو زمین کی شریانوں سے دستر خوان کی قوسوں اور پھر وہاں سے انسان کی رگوں میں بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچتی ہے۔
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Moona (02-15-2016)
@intelligent086 Thanks 4 informative sharing
intelligent086 (02-15-2016)
Moona (02-15-2016)
u r welcome
intelligent086 (02-16-2016)
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks